آئی بہار دور ہو ساقی شراب کا

آئی بہار دور ہو ساقی شراب کا
by نسیم میسوری

آئی بہار دور ہو ساقی شراب کا
دریا بہا دے بزم میں اشک کباب کا

اس آفتاب رخ پہ نظر اپنی پڑتے ہی
شبنم کی طرح اڑ گیا پردہ حجاب کا

کس بے وفا پہ مرتا ہے کیا کیجیے اسے
گھر اور ہو کہیں دل خانہ خراب کا

کرنے تو دو سوال کریں ہیں تو کیا
عاشق ہوں میں بھی اک بت خانہ خراب کا

ہر دم وہ مجھ کو دیکھ کے ابرو چڑھاتے ہیں
پیاسا ہے خنجر ان کا مرے خون ناب کا

قدموں کو چومتا اے صنم آتے جاتے میں
کیوں سنگ میں بنا نہیں تیری جناب کا

صدمے فراق یار کے کیا کم ہیں اے نسیمؔ
محشر میں مجھ کو خوف نہیں کچھ حساب کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse