آنکھوں کو انتظار سے گرویدہ کر چلے
آنکھوں کو انتظار سے گرویدہ کر چلے
تم یہ تو خوب کارِ پسندیدہ کر چلے
مایوس دل کو پھر سے وہ شوریدہ کر چلے
بیدار سارے فتنہ و خوابیدہ کر چلے
اظہار التفات کے پردے میں اور بھی
وہ عقدہ ہائے شوق کو پیچیدہ کر چلے
ہم بے خودوں سے چھپ نہ سکا راز آرزو
سب اُن سے عرضِ حال دل و دیدہ کر چلے
تسکینِ اضطراب کو آئے تھے وہ مگر
بے تابیوں کی روح کو بالیدہ کر چلے
یہ طرفہ ماجرا ہے کہ حسرت سے مل کے وہ
کچھ جان و دل کو اور بھی شوریدہ کر چلے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |