اے کشمکش الفت جی سخت پریشاں ہے

اے کشمکش الفت جی سخت پریشاں ہے (1940)
by علی منظور حیدرآبادی
324673اے کشمکش الفت جی سخت پریشاں ہے1940علی منظور حیدرآبادی

اے کشمکش الفت جی سخت پریشاں ہے
مرنے کی بھی حسرت ہے جینے کا کا بھی ارماں ہے

ساحل سے نہیں لگتی غرقاب نہیں ہوتی
کشتی ہے تھپیڑوں میں یہ بھی کوئی طوفاں ہے

میں کیا مری الفت کیا تو اور مجھے پوچھے
بس اے ستم آرا بس حسرت ہے نہ ارماں ہے

یہ موج تبسم کیا ظالم اسے دھو دے گی
جو رنگ پشیمانی چہرہ سے نمایاں ہے

مغرور محبت ہوں خود میری نگاہوں میں
یہ بے سر و سامانی راز سر و ساماں ہے

اس حسن مجسم کی شرمیلی اداؤں کا
احساس محبت بھی شرمندۂ احساں ہے

منظورؔ اسے رخصت کس دل سے کروں گا میں
دھڑکا ہے یہی ہر دم جب سے کہ وہ مہماں ہے

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse