تاباں جو نور حسن بہ سیمائے عشق ہے
تاباں جو نور حسن بہ سیمائے عشق ہے
کس درجہ دل پذیر تماشائے عشق ہے
ارباب ہوش جتنے ہیں بیمار عقل ہیں
ان کے لیے ضرور مداوائے عشق ہے
میں کیا ہوں ایک ذرۂ صحرائے اشتیاق
دل کیا ہے ایک قطرۂ دریائے عشق ہے
شاہ و گدا کا فرق نہیں عہد حسن میں
اب جس کو دیکھیے اسے دعوائے عشق ہے
ظاہر ہے بے قرارئ پیہم سے حال دل
بے کار ہم کو دعوائے اخفائے عشق ہے
پنہاں حجاب ناز میں ہے صورت جمال
پیدا حروف شوق سے معنائے عشق ہے
اے اہل عقل کیوں ہو اسے فکر نام و ننگ
حسرتؔ خراب عشق ہے رسوائے عشق ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |