جواب
راولپنڈی 30 اکتوبر 1925
میری شریر عذرا! تم نے اپنے خط میں عقل والی عورت بننے کوشش تو بہت کی لیکن ہر سطر سے صاف ٹپک رہا ہے کہ تم وہی شریر عذرا ہو۔
سب سے اول شادی کی دلی مبارکباد دیتی ہوں، یقین مانو، میں اپنی عمر کی چند برس اس بات پر فدا کرنے کو تیار ہوں کہ تمھارے سرخ رخساروں کو جن پر تمھارے سیاہ بال آپڑے ہوں، دیکھوں، ان رخساروں کو نہیں جو مدرسے میں تھے بلکہ ان رخساروں کو جنھیں ہوائے تاہل نے اور دمکادیا ہوگا، آہ! پیاری عذرا تمھیں چومنے، دیوانہ وار چومنے کی اور تم سے چومے جانے کی تمنا رکھتی ہوں، لو میں نے کاغذ پر اس جگہ ( ) کو چوما ہے اور میں خیال کرتی ہوں کہ میری روح محبت کا ایک ٹکڑا اس جگہ چپک کر رہ گیا ہوگا، اس مقام کو تم بھی چومنا تاکہ اس طرح سے میرے ہونٹ تمھارے ہونٹوں سے ایک جگہ ملیں اور میری روح کو مسرت پہنچے۔
تم نے اپنے خط میں کیا کیا لکھ ڈالا ہے۔ تمھارے خیالات نے (معاف کرنا بعض ان میں سے پراگندہ ہیں) تو مجھے حیرت میں ڈال دیا تم نے خذف اور الماس کو خوب ملایا ہے۔
تمھارا خط پڑھتے وقت میں کسی قدر ہنستی ہوں۔ میری شوخ، شاطر عذرا! اسی پھڑک، اسی بھڑک، اسی چنچل پن سے میری آنکھوں میں پھر گئی، وہی عذرا جو اپنی شرارتوں اور ہٹوں سے کبھی مجھے غصہ دلادیا کرتی تھی اور کبھی بے تحاشا ہنسا دیا کرتی تھی۔
لیکن یہ نہ سمجھنا کہ میں صرف ہنسی ہی ہنسی یا میں تمھارے خط کو لا ابالی تحریرسمجھی نہیں۔ مجھے اس خط سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تم نے حقیقت میں اپنا درد دل لکھا ہے اور اس لیے میں نے تمھاری تحریر پر جدا نظر ڈالی اور کئی دن تک اسی کے متعلق سوچتی رہی، تمھاری اور اپنی حالت کا موازنہ کرتی رہی میری اور تمھاری تربیت میں بہت ہی کم فرق ہے، ہم دونوں نے ایک ہی مدرسہ میں تعلیم پائی، لیکن ہاں چونکہ میرے والد خود شاعر اور اردو کے بڑے حامی اور دلدادہ تھے اس لیے کچھ ان کی کوشش سے، کچھ اپنے شوق سے مجھے اردو میں تم سے زیادہ مصروفیت رہی اور یہی وجہ ہے کہ انگریزی تو تمھارے برابر نہیں جانتی مگر اردو ضرور تم سے زیادہ جانتی ہوں، بولنے میں نہیں کیونکہ تمھاری رواں اور پیاری زبان بھی دلی کی کہاں سے لاؤں، ہاں لکھنے میں کیوں کہ والد کے مضامین اور ان کے کتب خانے کی کتابیں اکثر پڑھتی رہی ہوں اس لیے طبیعت تحریر کی اردو سے آشنا ہوگئی۔ پیانو، موسیقی، نقاشی اس میں ہم دونوں برابر ہیں، پھر بیاہ کا زمانہ آیا، قسمت نے بیاہ کے قرعہ میں میرے نام کے ساتھ ولایت کے پاس شدہ انجینئر مسٹر حامد کا نام نکال دیا، تمھارے نام کے ساتھ نواب غیاث الدین کی چٹھی نکلی اور ہمارے ماں باپوں نے ہمیں اپنی آغوش سے جد اکرکے ان لوگوں کے پہلو میں پھینک دیا۔
دل چاہتا ہے کہ اس مسئلہ ازدواج پر کچھ تھوڑا سا وعظ کہوں، پہلے بیاہ شادیوں میں کیا دیکھا جاتا تھا، یہی کہ برہم کف ہے یا نہیں، ایک برادری کا ہے یا نہیں، اس کف اور برادری پر سب چیزیں قربان کردی جاتی تھیں۔ پھر اصلاح ہوئی، کف کا خیال ترک کردیا گیا، تعلیم کا زور ہوا، ’’بر، تعلیم یافتہ ہونا چاہیے، تعلیم یافتہ ہونا چاہیے‘‘ کا شور بلند ہوا، تھوڑے دنوں کے بعد اخلاق کی بھی چھان بین ہونے لگی، بس یہاں پہنچ کے اصلاح رخصت ہوئی، گویا اب کوئی کام باقی نہیں رہا، لیکن مجھ سے پوچھو تو کوئی کام ہوا ہی نہیں، اصلی اصلاح تو جب ہے، جب لڑکے لڑکی کے مزاج اور طبیعت کی مناسبت کی پوری پوری چھان بین کی جائے۔ خاوند اور بیوی دوہرے کپڑے کی ابری، استرہیں ابری، استر کے رنگ کی مناسبت کا کتنا خیال کیا جاتا ہے، یہ نہیں کہ دونوں ایک ہی رنگ کے ہوتے ہوں، نہیں ایک رنگی میں کوئی زینت نہیں، خیال یہ کیا جاتا ہے کہ ایک رنگ دوسرے سے جوڑ کھاتا ہو۔
بس اسی طرح، لڑکے لڑکی کے مزاج کا خیال لازمی ہے، امتزاج کے اسباب موجود ہیں یا نہیں، طبیعتوں میں ایسا بین تضاد تو نہیں کہ میل کھانا مشکل ہو، میرے نزدیک تو سب سے زیادہ اہم یہ سوال ہیں، حسن و جمال، مال دولت، تعلیم و تربیت سب کو میں دوسرے درجہ پر رکھتی ہوں۔
شاید تمھاری طبیعت اس وعظ سے گھبراتی ہوگی میں معافی چاہتی ہوں میں اس بحث کو ترک کیے دیتی ہوں۔ مگر کیسے ترک کروں، آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں کہ تم جسے میں ہمیشہ کہا کرتی تھی کہ مزاج میں سنجیدگی نہیں، الہڑ ہے اور میں جسے تم ہمیشہ خیال پرست (Sentimental) شاعر مزاج کہا کرتی تھیں، ہم دونوں ایسے خاوندوں کے پالے پڑے کہ ان لوگوں کے ساتھ شادی نہ ہوئی ہوتی تو چاہے یہ بھائی ہی ہوتے۔ ہم ان کے پاس دس منٹ بیٹھنے سے گھبراتے اور شاید وہ لوگ ہمارے لیے ایسا ہی خیال رکھتے ہوں گے۔ یہ عدالت ہے، یہ انصاف ہے؟ کہو ’’ہاں‘‘ سوائے اس کے اور کچھ کہنا منع ہے، لیکن اس تضاد کا سبب کون ہے؟ ان خرابیوں کا جواب دہ کس کو قرار دینا چاہیے؟ میں تو بلا پس و پیش کہتی ہوں، ہمارے ماں باپوں کو۔
اگرچہ خط لمبا کرکے تمھیں پریشان کروں گی لیکن میں بھی تمھیں اپنی زندگی کا مرقع دکھاتی ہوں، مسٹر حامد کیسے آدمی ہیں؟ ان کے حسیات اور خیالات کیا ہیں؟ افکار کیا ہیں؟ ان کے حسیات اور خیالات یہ ہیں، ( 0 x 0 = 0)
آہ تم ایسا خاوند چاہتی تھیں، جو رات دن تمھارے ساتھ ہنسا کرے، تمھارے کھیلوں میں شریک ہوا کرے، مجھے ایسے شوہر کی تمنا تھی، جو کسی باز کے پنجہ میں پھنسی ہوئی چڑیا یا کسی پژمردہ گل کو دیکھ کر میرے ساتھ روئے، میرے ساتھ ہر دم عالم خیال میں رہے۔
حال یہ ہے کہ مسٹر حامد، جب رات کو گھر میں تشریف لاتے ہیں تو اس خوف سے کہ کہیں ان کی نیند نہ اڑجائے، میری باتوں کا جواب بھی نہیں دیتے، (اگر کسی دن تعطیل کے ایام ہیں) گھر میں کچھ ٹھہرے بھی اور میں ان کی خاطر کچھ بجانا شروع کیا تو وہ فوراً آرام کرسی پر بیٹھ کر سونا شروع کردیتے ہیں، ان کے اوقات کا نقشہ تمھیں لکھتی ہوں۔
سونا۔۔۔ 9 گھنٹے
سرکاری کام۔۔۔7 گھنٹے
سیر وتفریح و ریاضت۔۔۔ 6 گھنٹے
گھر میں۔۔۔ 2 گھنٹے
میزان 24
ذرا دیکھنا؟ 24 گھنٹوں میں دو گھنٹے مجھے دیتے ہیں کہ اس حساب سے سال بھر میں میری ان کی ملاقات صرف ایک مہینے ہوتی ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ ان دو گھنٹوں میں گھر کے معاملات بچوں کا دیکھنا بھی شامل ہے، غرض کہ مسٹر انجینئر نے یہ حساب پورا پورا بنا رکھا ہے اور اس پر بہت باقاعدہ عمل ہوتا ہے۔
عذرا! تمھیں بھی قسم ہے، اس تقسیم اوقات کے متعلق ذرا اپنی رائے دینا۔
گھر کے تمام انتظامات اور معاملات میرے متعلق ہیں، خانہ داری کے متعلق وہ کسی چیز میں پھنسنا نہیں چاہتے ہیں، جو چاہوں کروں، مجھے پوری آزادی ہے، بچوں کو پالوں یا مارڈالوں، گھر تبدیل کردوں، اسباب بیچ ڈالوں اور خریدلوں، نوکروں کو مقرر کروں، برخاست کروں غرض کہ جو چاہوں کروں، مختار ہوں۔
وہ گھر کو ہوٹل سمجھتے ہیں اور کھانے پینے اور سونے کے لیے یہاں آتے ہیں ان تین باتوں کے انتظام میں وہ دخل نہیں چاہتے، اگر میں بیمار بھی پڑ جاؤں تو ان کے مقررہ اوقات میں فرق نہیں پڑتا، خود طبیعت ناساز ہو تو ظاہر ہے کہ اس دستورالعمل میں تبدیلی ہوجاتی ہے۔
کم سخنی کا وہ عالم ہے کہ بات ان کے وہاں موزوں سے اول تو کم نکلتی ہے اور جب نکلتی ہے تو تل تل کے رتی رتی نکلتی ہے۔ میری تعلیم و تربیت معمولی تعلیم و تربیت نہ تھی، مدرسے کے علاوہ گھر پر بھی مجھ پر تربیت کی بوچھاڑ رہی، گورنس اور کیا، اور کیا، سب سے گھری رہی، پھر دلہن بنی اور ایسے شخص کو سونپی گئی جو بڑا تعلیم یافتہ، سات سمندر پار سے پڑھ کے آیا تھا اور اللہ کن کن امیدوں کے ساتھ میں اپنے خاوند کے پاس پہنچ گئی۔ پہنچی تو عالم کچھ اور ہی پایا۔ کیا عالم امیداور عالم حقیقت، عالم خیالی اور عالم اصلی میں ہمیشہ اتنا فرق ہوتا ہے؟
حامد نے تمھارے خاوند کی طرح ہر دم میرے ساتھ رہنے سے مجھے پریشان نہیں کیا، بلکہ وہ آزادی دی، جس سے میرے حق میں بے پروائی کی بو نکلتی تھی۔
تم جانتی ہو میں ایسی بدشکل تو نہیں، میری ملاقاتیں اور آئینہ اس کی شہادت دیتے ہیں، جب یہ بات ہے تو کیوں میں اپنی تعلیم و تربیت و حسن کے شایاں باکمال عفت زندگی بسر نہ کروں، کیوں میری قسمت میں یہ بے پروائی لکھی ہوئی ہے؟ اسے سوچتے سوچتے میں کبھی چلا اٹھتی، ’’اگر یہی بے پروائی ہے تو میں بھی ناولوں کی سی زندگی شروع کیوں نہ کرودوں۔‘‘ یہ شخص جو میری تحقیر کرتا ہے اس کا جواب تحقیر سے دوں، میری معنویات اور میری مادیات میرا بازو پکڑتے تھے اور ایک اپنی طرف کھینچتی اور دوسری اپنی طرف، آدھی رات تک اپنے خاوند کا انتظار کرتے اپنی لڑکی کو تھپکاتی ہوئی، اسی کشمکش میں رہا کرتی تھی۔ میں سوچتی تھی، کہ میں اپنے خاوند کی اسیر، اس کی باندی ہوسکتی ہوں مگر اس کی طرف سے باندی کرنے کی کوشش تو دیکھوں وہ کیا؟ فداکاری، محبت، مگر اس کا وہاں نام و نشان نہیں تھا، شاید میں نے پڑھا لکھا نہ ہوتا تو یہ خیالات میرے ذہن میں نہ آتے، شاید میری نظر سطحی ہوتی اور اس لیے میں زیادہ متحمل، زیادہ صابر ہوتی، شاید میرے ذہن میں نہ آتا کہ حقارت کا مقابلہ حقارت سے کیا جاسکتا ہے، شاید میں یہ بھی نہ سمجھتی کہ میری حقارت کی جارہی ہے (مگر نہیں تعلیم نہ پاتی تو اور بھی زیادہ وحشی ہوتی، سوچنے، موازنہ کرنے اور طبعیت کو روکنے کا مادہ نہ ہوتا۔)
ایک روز ایک عورت اپنا دکھڑا سنارہی تھی، میں نے ہمدردی کے طریقہ سے کہا، ’’صبر کرو، صبر اچھی چیز ہے‘‘، وہ شکایت آمیز آواز سے کہنے لگی، ’’بیشک، صبر، مگر صبر کے بعد قبر‘‘، سوچتی ہوں تو اسے صحیح پاتی ہوں، انسان دو مرتبہ دنیا میں نہیں آتا، شباب عود نہیں کرتا، فرض کرو کہ یہ بے اعتنائی میری طرف سے ہوتی تو کیا انہیں شکایت کا موقع نہ ہوتا۔
’’یہ باتیں تمھیں لکھ رہی تھی، کہ میری چھوٹی لڑکی جمیلہ دوڑی دوڑی میرے پاس آئی اور اپنی پیاری پیاری، ننھی ننھی آواز سے کہنے لگی۔ اماں جان! آج تم نے مجھے چوما نہیں‘‘ اور یہ کہہ کے کرسی پر چڑھ کر میری گود میں آبیٹھی، اور اس نے تمام میری دل کی جراحتوں پر مرہم کا کام دیا۔ عذرا! پیاری، خدا تمھیں بھی بال بچہ دے، اولاد بڑی نعمت ہے، ساری دنیا کے غم اس کے سامنے بھاگ جاتے ہیں، اپنی بچیوں کو دیکھ کر یہ زندان، مجھے بہشت معلوم ہوتا ہے، یا میں اپنے تئیں ایک باغ تصور کرتی ہوں، جس میں یہ پھول کھل رہے ہیں، جوں جوں پھول کھلتے ہیں، باغ کی مسرت بڑھتی جاتی ہے۔
پیاری عذرا، میں دیکھتی ہوں کہ علم میں میرا خاوند چاہے مجھ سے بڑھ کر ہو چاہے میرے برابر، ایک بات میں تو قطعی طور پر میں اس سے بڑھی ہوئی ہوں اور وہ بات محبت اور شفقت ہے میں اپنی بچیوں کو چومتے وقت اپنی محرومیت اور بدنصیبی سب بھول جاتی ہوں، حامد میں شفقت اور محبت کا نشان تک نہیں۔ اس نے نہ اقلیدس میں اسے پڑھا، نہ جبر مقالہ میں اس لفظ کو دیکھا، آج ان لڑکیوں کو لے کر چلی جاؤں، تو اگر میری ضرورت اسے نہ ہو تو کبھی بھول کر بھی لڑکیوں کا خیال نہ کرے میں نے ابھی کہا تھا کہ یہ حس شفقت میرے لیے اپنے خاوند پر تفوق کا باعث ہے لیکن غور سے دیکھو تو یہی تفوق میری اور کل عورتوں کی ذلت کا باعث ہوتا ہے۔
حامد کو گھر میں اگر کسی چیز سے دلچسپی ہے تو اس سے کہ لڑکیوں کو نقشہ کشی سکھائے، کسی دن تعطیل کا پورا دن اس میں صرف ہوجاتا ہے، بڑی لڑکی سعیدہ ابھی سال بھر ہوا علی گڑھ مدرسہ نسواں میں بھیج دی گئی، وہاں لوگوں نے اس کی نقشہ کشی اور مصوری کی لیاقت دیکھ کر بہت تعجب کیا۔ کبھی دونوں لڑکیوں کو ساتھ لے جاکر انھیں بائیسکل پر چڑھنا سکھاتے ہیں۔
میں دعا کرتی ہوں ان دونوں لڑکیوں کی قسمت میری سی نہ ہو۔ یہ تصویر کھینچنے والی، بائیسکل پر سوار ہونے والی لڑکیاں ساکن وراکدا اور ٹھوس طبیعت والے خاندان کے پالے نہ پڑیں۔
بارہ برس سے میں حامد کی بی بی ہوں، مجھے تو یاد نہیں پڑتا مکانوں کے نقشے اور کھیلنے کےتاش کے علاوہ کوئی کاغذ میں نے ان کے ہاتھ میں دیکھا ہو، نقشے کھینچا ایک تاش کھیلنا، دو یہ ان کے شغل ہیں، کبھی کوئی بحث، کبھی کوئی بات، جس سے دل میں حرکت، دماغ میں چمک پیدا ہو، میں نے ان سے نہیں سنی، ان سے ملنے دوست بھی آتے ہیں تو چپکے چپکے تاش کھیل کے چلے جاتے ہیں۔ دنیا میں انھیں کسی چیز کے متعلق جوش نہیں آتا۔ ان دو مشغلوں کے علاوہ دنیا کے کسی واقعہ کا ان کے دماغ میں گزر نہیں ہوتا، ان کھیلوں، ان شغلوں کو بھی مقررہ اوقات میں کرتے ہیں، غرضیکہ ان کا فلسفہ حیات دنیا میں نبابات کی طرح خاموش زندگی بسر کرنا ہے، ہاں یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ زندہ ہیں، کبھی کبھی تاش کھیل لینا ہے۔
وہ دن نہ بھولونگی، کئی برس ہوئے، اس سکوت مطلق سے عاجز آکر میں ایک دن ان سے خوب لڑی، اس طرح۔
’’اس ٹھہرے پانی جیسی زندگی سے تو میں اکتا گئی، خدا کے لیے کچھ حرکت کرو، کوئی بات کہو اور نہ سہی مجھ سے لڑو، شور مچاؤ، مجھے معلوم تو ہو کہ تمھاری رگوں میں خون دوڑتا ہے اور میں ایک مرد کی رفیقہ ہوں، جاؤ کسی بیگانی عورت سے محبت کرو، تاکہ اس حالت کو دیکھوں اور اسی طرح اس یک رنگ، یک آہنگ زندگی میں کچھ فرق آئے، ورنہ یہ مکان قبرستان سے بدتر ہورہا ہے۔ یہ موت جیسی زندگی کب تک رہے گی، اچھا یہ نہیں تو آؤ مجھے مارو، میرے بال نوچو، آؤ کچھ تو کرو، میں کیا کیا تمھیں سنا رہی ہوں، سنتے ہو، سمجھتے ہو، کہ نہیں۔۔۔‘‘
میں اس چیخنے چلانے سے تھک کر چپ ہورہی، مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہ تھا، استہزاء، نہ غصہ، نہ حدت۔ کہا تو یہ کہا (وہ بھی نہایت آہستہ سے) ’’ذرا میرا کوٹ لادیجیے جمیل کے ہاں جانا ہے، ان سے آج تاش کھیلنے کا وعدہ کیا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر باہر چلے گئے۔ میرں کرسی پر گرپڑی اور بڑی دیر تک رویا کی۔
ساتھ اس کے یہ خیال رہے، وہ میری کسی طرح کھلی کھلی تحقیر، تذلیل نہیں کرتے، کبھی ’’تم‘‘ کا لفظ میں نے ان کی زبان سے نہیں سنا، ہمیشہ ’’آپ‘‘ کا استعمال کرتے ہیں، نہایت عزت اور احترام کا برتاؤ کرتے ہیں۔
لیکن یہ احترام کچھ مخصوص احترام نہیں، طبیعت کی افتاد اسی طرح ہوئی ہے، گویا ایک کل کا آدمی ہے جسے اسی طرح کی کوک ملی ہے اور اس کوک کے مطابق چل رہا ہے۔
باہر والے ہمیں سمجھیں گے کہ ہماری زندگی بڑی اچھی اور قابل رشک زندگی ہے لیکن اگر اس پوشیدہ حقیقت کو دیکھیں تو۔۔۔
’’پیاری عذرا! تم نے اپنے خاوند کے حالات میں لکھا ہے، خاموش نہیں بیٹھا جاتا، ہر بات میں دخل دیتا ہے، حرص بھری نظروں سے مجھے دیکھتا ہے، وغیرہ وغیرہ‘‘ میں اس کے جواب میں تمھیں مبارکباد دیتی ہوں، اس کی لالچی نظریں، غرور نسوانی کے لیے غذا ہیں، میں تم سے کہتی ہوں، خوشی خوشی زندگی بسر کرو تمھاری اور تمھارے خاوند کی تربیت میں اختلاف ہے مزاج میں تھوڑا سا اختلاف ہے، مگر نہ اتنا کہ کوشش کرکے ایک دوسرے کے موافق نہ ہوجائے۔ پس اس کے ساتھ ہنسی خوشی بسر کرو، تمھارے خاوند کی ایک زندگی تو ہے، کچھ پرواہ نہیں اگر وہ شور مچاتا ہے، ڈکار لیتا ہے، ناٹک کے گانے گاتا ہے، یہ باتیں اس قدر تحمل فرسا نہیں جیسی میرے گھر کی بے حرکت بے مآل زندگی۔ میں ان احترامات کی کیسی برداشت کروں۔ تمھیں یاد ہوگا شادی سے پہلے میں کہا کرتی تھی کہ میں اپنے خاوند پر حکم کیا کرونگی اس کی آمرو مجبر ہونگی، لیکن اب دیکھو میرے تمام خیالات بدل گئے۔ میں چاہتی ہوں وہ میرا احترام نہ کرے نہ کرے لیکن مجھ سے اپنا احترام کرائے، اور دل میں ایسا گھر کرلے کہ چاہے مجھے اذیتیں دے لیکن میں اس کی مطلوب مشتاق رہوں ان اذیتوں سے لذت اٹھاؤں۔۔۔
اف! سنسان، بے صدا جینا کچھ نہیں، اردو کا شیکسپیئر، غالب، کیا صحیح کہہ گیا ہے۔
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی، نغمہ شادی نہ سہی
سکوں کی خواہش ہے تو اس کے لیے قبر موجود ہے۔ مرنے سے کوئی روکتا نہیں، یہ سمجھ لو کہ فکر کی لذت، خیال کی لذت، شور وشغب کی لذت سے بڑھ کر ہے، مگر نہ حس نہ حرکت، نہ عالم خیال میں میرے ساتھ شرکت، نہ عالم وجود میں میرے ساتھ شرکت! اس کو زندگی کہتے ہیں؟
باقی تمھاری پیاری آنکھوں، تمھاری سیاہ بالوں، تمھارے سرخ گلگوں رخساروں سے، اشتیاق اور حسرت کے ساتھ لاکھوں کروڑوں بو سے لینے کی آرزو۔
تمھاری مفتون
سلما
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |