جور افلاک بسکہ جھیلے ہیں

جور افلاک بسکہ جھیلے ہیں (1893)
by مرزا مسیتابیگ منتہی
317555جور افلاک بسکہ جھیلے ہیں1893مرزا مسیتابیگ منتہی

جور افلاک بسکہ جھیلے ہیں
ایسے پاپڑ بہت سے بیلے ہیں

گہ حضوری ہے گاہ ہے دوری
گہ اکیلے ہیں گہ دو کیلے ہیں

اسپ تازی نظر نہیں آتے
سو کھروں سے بھرے طویلے ہیں

کہتے ہیں یاں جسے قمار عشق
کھیل ایسے بہت سے کھیلے ہیں

جیتے ہیں وہ قمار عشق میں یار
جان پر اپنی جو کہ کھیلے ہیں

ٹھہرے کب جنگ حسن میں یہ شیخ
ایک مدت کے یہ بھگیلے ہیں

پاس اپنے دوئی کا نام نہیں
جب سے پیدا ہوئے اکیلے ہیں

نہ دکھانا لحد میں آنکھیں نکیر
پاس اپنے بھی قل کے ڈھیلے ہیں

کفر و دیں کا ہو فیصلہ کیوں کر
ایک مدت کے یہ منجھیلے ہیں

دیر و کعبہ کی بھیڑ بھاڑ ہے کیا
ایسے دیکھے بہت سے میلے ہیں

گریۂ پر اثر کی شدت ہے
صاف آب بقا کے ریلے ہیں

بھیجا اپنا خیال اس بت نے
جب سنا منتہیؔ اکیلے ہیں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AC%D9%88%D8%B1_%D8%A7%D9%81%D9%84%D8%A7%DA%A9_%D8%A8%D8%B3%DA%A9%DB%81_%D8%AC%DA%BE%DB%8C%D9%84%DB%92_%DB%81%DB%8C%DA%BA