حسن ان کا اپنے ذوق دید میں پاتا ہوں میں

حسن ان کا اپنے ذوق دید میں پاتا ہوں میں (1940)
by علی منظور حیدرآبادی
324664حسن ان کا اپنے ذوق دید میں پاتا ہوں میں1940علی منظور حیدرآبادی

حسن ان کا اپنے ذوق دید میں پاتا ہوں میں
سامنے ہو کر وہ چھپتے ہیں تڑپ جاتا ہوں میں

عشرت جلوہ بھی ہو جائے جہاں حیرت زدہ
اے خیال دوست اس منزل پہ گھبراتا ہوں میں

دیکھتا ہوں اپنے غم خواروں کی جب بے دردیاں
حسن بے پردہ کی رہ رہ کر قسم کھاتا ہوں میں

انتظار اس کا ہے کتنا جاں گسل کیونکر کہوں
خط میں جس کا نام ہی لکھ کر تڑپ جاتا ہوں میں

کب سنبھلنے دے گی غش سے ان کی چشم برق پاش
مژدہ بادائے بے خودی آتے ہیں وہ جاتا ہوں میں

بے خیالی میں کبھی اپنی زبان حال سے
خستہ حالی کے مزے ان کو بھی سمجھاتا ہوں میں

آہ اب تک کی نہیں سیر بہارستان دل
اک خیالی رو میں اے ہمدم بہا جاتا ہوں میں

حیرت افزا ہے مرا عشق محبت آفریں
خود ہی اب مضطر نہیں ان کو بھی تڑپاتا ہوں میں

راستہ چھوڑ اے تغافل میرے گھر آتے ہیں وہ
رہبری کر اے تمنا ان کے گھر جاتا ہوں میں

حیرت مشق تصور کھو نہ دے مجھ کو کہیں
سامنے اپنے تجھے اے دل نشیں پاتا ہوں میں

لا رہی ہے ان کی چشم لطف عشرت کے پیام
دیکھ اے منظورؔ اب کیسا نظر آتا ہوں میں

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse