حضرت دل کی سوانح عمری

حضرت دل کی سوانح عمری
by سجاد حیدر یلدرم
277939حضرت دل کی سوانح عمریسجاد حیدر یلدرم

مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ اپنی سوانح عمری لکھوں، اس میں شک نہیں کہ میرے حالات فائدے سے خالی نہ ہونگے لیکن مشکل یہ ہے کہ میرے سوانح، میری کیفیات، میری زندگی کی صعوبات لوگوں کو یا تو یقین نہ آئیں گی یا سمجھ میں نہ آئیں گی۔ مثلاً ایک چھوٹی سی بات لیجیے۔ میں اثر پذیر بہت ہوں، خدا نے بے شمار مخلوق پیدا کی ہے اور اس بے شمار مخلوق میں میں ایک ناچیز مختصر چھوٹی سی شے ہوں، لیکن میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں اور یہ حکایت امر واقعی ہے (کچھ فخر نہیں) کہ اس تمام مخلوق میں کوئی مخلوق نہیں جو میری برابر متاثر ہوتی ہو۔ اسے کون یقین کریگا؟

پھر میں ہر چھوٹی بڑی شے سے متاثر ہوتا ہوں، نئی، پرانی، قدرتی، مصنوعی، ظاہری، باطنی، صوری، معنوی، جاندار، بیجان غرضیکہ کوئی چیز ہو مجھ پر اثر کرنے کے لیے کافی ہے لیکن آپ سے سچ کہوں اور سچ ہی کہونگا، یا تو سوانح عمری لکھوں گا نہیں یا لکھوں گا تو سچائی سے منحرف نہ ہوں گا، کوئی چیز مجھ پر اتنا اثر نہیں کرتی جتنا۔۔۔ میں کیسے کہوں آپ شبہ کریں گے۔۔۔ جتنا۔۔۔ جتنا۔۔۔ نا۔۔۔ حسن

میری بساط مٹھی بھر کی بھی تو نہیں، لیکن حسین چیز دیکھی اور بیتاب ہوگیا۔ بانسوں اچھلنے لگتا ہوں، دھڑکنے لگتا ہوں، میں کسی سینے میں ہوں اور وہ سینہ کسی لباس میں ہو، عبائے تقویٰ و زہد میں جامہ رندی وخراباتی میں، عالم وادیب کے چوغے میں یا رئیس کے زر دوز لبادے میں، غرض میں کہیں چھپا ہوں وہ چیز جسے حسن کہتے ہیں، میرے سامنے ہوئی اور میں از خود رفتہ ہوگیا۔

ایک اور بات ہے جس سے میں اپنے حالات لکھتے ہوئے ہچکچاتا ہوں، میں نے اس دنیا میں آرام نہ دیکھا، تکلیف اور درد میری قسمت میں تھا، گھلنا، ٹکڑے ہو ہو جانا میرے نصیب میں تھا۔ اس وسیع دنیامیں ہر شے عیش میں ہے اور نہیں ہوں تو میں۔ وجہ اس کی کیا ہے؟ یہی کہ اور جتنی چیزیں ہیں وہ اس چیز سے (اسے نعمت کہوں یا مصیبت؟) بری ہیں، جس سے میرے رگ و ریشہ کی ساخت ہے۔ یعنی میں متحسس ہوں اور وہ نہیں ہیں۔

سب سے پہلی حسین چیز جو مجھے یاد ہے اور جس کا خیال اب تک مجھ پر اثر کرتا ہے وہ وہ شفقت اور رقت، روحانیت و انسانیت کی دیوی ہے جسے ماں۔ معاف کیجیے میں اب کچھ نہیں لکھ سکتا، اس لفظ کے آتے ہی میں دھڑکنے لگا! دھڑک لوں تو لکھوں۔۔۔ کہتے ہیں۔ حسن میں نے سینکڑوں طرح کے دیکھے اور سب میں کشش پائی، لیکن جتنی کشش اس حسین اور نرم شے میں دیکھی کسی میں نہ دیکھی۔

قدرت کی یہ سب سے نرم اور شفیق چیز مجھے بہت ہی پیاری معلوم ہوتی تھی اور اکثر ایسا ہوا ہے کہ میں اس کے پیارے چہرے کو دیکھنے کے لیے رویا ہوں اور مجھے گود میں اٹھالیا گیا ہے اور یہ خیال کرکے کہ میں بھوکا ہوں مجھے دودھ پلایا گیا ہے حالانکہ اس کی بالکل ضرورت نہ تھی، میں بس اس کو دیکھنے، گھنٹوں اس فرحت بخش، طمانیت بخش، محبت پاش، الفت انگیز چہرے کو۔۔۔ اس چہرہ کو جو مجھے عالم لا ہوتی کی صورتوں کی جنھیں میں ابھی چھوڑ کے آیا تھا، یاد دلاتا تھا، دیکھنے کا خواہشمند تھا، کبھی، کبھی میں اس حسین شے کے سینے سے لپٹنے کی خواہش کرتا تھا، لیکن کہہ نہیں سکتا تھا، صرف ہمکتا تھا اور وہ حسن کی دیوی، وہ شفقت و روحانیت کی پری، خدا ہی جانتا ہے میری خواہش کو کس طرح سمجھ لیتی تھی اور مجھے سینے سے لگا لیتی تھی اور اس وقت وہ خوشی محسوس کرتا تھا جو دنیا کی تمام خوشیوں سے بالاتر ہے۔ میں جب اس کے سینے سے لگتا تھا تو مجھے معلوم ہوتا تھا اور یہ معلوم ہوکے مجھے کیسی خوشی ہوتی تھی کہ میں اس کے سینہ میں بھی دھڑک رہا ہوں۔ وہاں بھی تڑپ رہا ہوں۔

دوسری حسین اور خوبصورت چیز جس نے مجھے اپنی طرف کھینچا وہ شمع تھی۔ یہ نور عریاں مجھے گھنٹوں محو حیرت رکھتا تھا اور کہیں قریب ہوا تو میں اسے سے ملنے کے لیے اس سے لپٹنے کے لیے بے اختیار اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا تھا۔

لیکن یہ کیا؟ مجھے روکتے تھے۔ کیوں؟ کیوں مجھے اس حسین شے سے ملنے نہیں دیتے تھے؟ اس لیے کہ پہلے کی طرح ہر حسین شے شفیق نہیں۔ یہ حقیقت، یہ دل شکن حقیقت مجھے بعد میں معلوم ہوئی، اچھا ہوتا اگر جب ہی معلوم ہوجاتی۔

چاند۔ وہ بیجان مخلوق میں سب سے زیادہ طرب انگیز چیز یعنی چودھویں رات کا چاند۔ تو مجھے بالکل بیتاب کردیتا تھا۔ اسے بھی پکڑنے، اس سے بھی ملنے کی خواہش ہوتی تھی، میں اسے اپنے پاس اپنی طرف متوجہ سمجھتا تھا، سب کہتے تھے ’’دیکھو دیکھو، کیسا ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے، آنکھ بھی نہیں جھپکتی‘‘ میں اسے دیکھ دیکھ کے کھل کھلاکر ہنس پڑتا تھا، کیوں کہ اسے میں اپنی طرف مائل پاتا تھا اور پھر اسے پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھاتا تھا مگر آہ چاند دور تھا۔ حسن دھوکا بھی دیتا ہے۔

بس یہ زمانہ میری خوشی کا زمانہ تھا، میں حسینوں سے گھرا رہتا تھا، ہوا میں پریاں میرے پاس آیا کرتی تھیں اور مجھ سے باتیں کیا کرتی تھیں اور لطیفے کہہ کہہ کے مجھے ہنساتی تھیں۔ فرشتے ایک زریں سیڑھی پر آسمان سے اترکر میرے پاس آتے تھے، مجھ سے سرگوشیاں کرتے تھے اور مجھے گد گداکے بھاگ جاتے تھے۔ سیڑھی پر سے چڑھنے اور اترنے کا تانتا بندھا رہتا تھا اور میں انھیں دیکھا کرتا تھا۔ گھر میں حسین، پاکیزہ اور باعصمت عورتیں مجھے گھیرے رکھتی تھیں، میں جس گود میں چاہتا جاتا اور خوشی خوشی قبول کیا جاتا تھا، جس کے گالوں پر چاہتا ہاتھ پھیرتا اور سب ہنستے تھے، جس کا چاہتا بوسہ لیتا اور سب مجھے چومتے تھے۔

اس پہنائے زندگی میں، میں نے چند قدم اور ڈالے۔ اب رنگ برنگ کی تیتریاں مجھے اپنی طرف کھینچتی تھیں، میں ان کی طرف دوڑتا تھا اور وہ اڑجاتی تھیں، حسن کی بے اعتنائی دیکھی؟

ایک دن ایک پاک، سفید و براق کبوتر میرے ہاتھ آگیا۔ میں فرط محبت سے اسے بھینچتا تھا، اسے چومتا تھا لیکن وہ پھڑ پھڑاکے اور میرے ہاتھوں سے اپنے تئیں چھڑا کے اڑگیا۔ حسن قدر ناشناس ہے۔

ابھی میں کم عمر ہی تھا کہ مجھے ایک خوفناک حقیقت معلوم ہوئی، ہم چند نو عمر دل زمین پر بیٹھے ہوئے کھیل رہے تھے، لڑکے بھی تھے، لڑکیاں بھی تھی، مٹی کے گھروندے بنارہے تھے، میرے پاس ایک حسین شاطر لڑکی بیٹھی تھی، ہم گھروندے بھی بناتے جاتے تھے اور آپس میں باتیں بھی کرتے جاتے تھے، نہ معلوم اس نے کونسی ایسی بات کہی کہ مجھے بہت ہی بھلی معلوم ہوئی اور میں نے اس سے بے اختیار ہوکر ایک بوسہ مانگا، یا تو وہ مجھ سے ایسی گھل مل کے باتیں کررہی تھی یا اس سوال سے ایسا مزاج برہم ہوا اور اس نے مجھے ایسے زور سے جھڑکا، اس شدت سے ڈانٹا کہ میں کانپ اٹھا اور اب بھی جب خیال آتا ہے تو وحشت زدہ ہوجاتا ہوں۔ اللہ رے حسن، تیرا غرور! لیکن نہیں، صنعت خالق میں، عورت کے سوا سب سے زیادہ پیاری صنعت، پھول، سے مجھے شکایت نہیں، اس نے مجھ سے اجتناب نہیں کیا، بلکہ میری ہی طرف سے اس پر زیادتی ہوئی۔ بجائے اس کے کہ وہ مجھے توڑے، میں اسے توڑتا تھا، پھول کبھی دل شکن نہیں ہوا، میں اکثر گلچیں بنا۔

کہا جاتا ہے کہ میں رئیس اعضا ہوں، خاک بھی نہیں، اگر میں رئیس اعضا ہوں، تو مثالاً میں جب اس حسن کی دیوی کو دیکھ کر غش ہوجاتا ہوں اور حکم کرتا ہوں، ’’چلو اس کی پرستش کریں، اس کے قدموں پر اپنے تئیں ڈال دیں‘‘ کیا ہوتا ہے، میری ریاست دھری رہ جاتی ہے، رئیس اعضاء کی کوئی نہیں سنتا۔ دماغ (و ہ مشیر با تدبیر جن سے خدا سمجھے، جنھیں ’’مصلحت نہیں‘‘ ’’بری بات ہے‘‘ کے سوا اور کچھ آتا ہی نہیں)فرمانے لگتے ہیں، ’’بری بات ہے، عیب کی بات ہے، لوگ کیا کہیں گے، مانا کہ تم برے خیالات سے پاک ہو، لیکن دنیا پر کیسے ثابت کروگے؟‘‘ پاؤں زمین میں گڑ جاتے ہیں، میں وہیں پس کے اور غصے میں خون ہو کر رہ جاتا ہوں۔

ابتدائے آفرینش عالم سے اب تک لا تعداد تجربے میں نے کئی اور بیشمار اشخاص سے پالا پڑا، کسی کو دوست پایا، کسی کو دشمن، کسی کو اپنی طرف سے بے پروا۔

انہیں جنہوں نے مجھے اپنی طرف کھینچا میں کبھی بھولوں گا، تھوڑا ہی۔ نجد میں مجھے لیلا نے بہت پریشان کیا۔ ایران میں شیریں کے ہاتھوں میں بہت بھٹکا۔ مگر آہ! شکنتلا! شکنتلا وہ مجھ پر مہربان تھی۔ لیکن ادھیلن! تو بے پروا تھی اور کیسی بے پروا کہ لاکھوں خلق خدا کا خون کرا گئی۔

سوانح عمری میں حقیقت سے گریز نہ کرنی چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض کو میں نے بھی تباہ کر دیا۔ جو ناچ چاہا انہیں نچایا قیس عامر کا جب خیال آتا ہے تو میں بہت ہی کڑھتا ہوں فرہاد کی زندگی تلخ کردی، ہند کے بادشاہ جہانگیر کو بھی میں نے بہت ستایا۔

یہاں جملہ معترضہ کے طور پر ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں ظلم اور سختی سے (جو معنوی بدصورتی ہے) میری ازلی دشمنی ہے اور حد سے زیادہ تعقل سے مجھے نفرت ہے یہی وجہ ہے کہ بیکن بو علی سینا ابن رشد، اقلیدس نپولین، تیمور اور چنگیر کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں، لیکن جہاں یہ میرے دشمن تھے وہاں میرے مداح، رفیق، میرے دوست بھی ہوئے ہیں شیکسپیئر کو میں نہ بھولوں گا، کالی داس، حافظ، اکبر، کبیر کی یاد مجھ میں ہمیشہ تازہ رہے گی یہ میرے دائمی دوست تھے اور سچے دوست تھے۔

میں نے مشرق اور مغرب میں جو سفر کیے ہیں اور جو تجربے اور واقعات نظر سے گزرے ہیں وہ بھی نہایت حیرت خیز ہیں۔

سب سے پہلے مجھے یہ کہنا ہے کہ مشرق ہو یا مغرب، یورپ ہو یا ایشیا، میں نے ہر جگہ، ہر جگہ بدنظمی، ہر جگہ لٹیروں، قزاقوں کو درپے آزار دیکھا۔

مشرق بالخصوص ہندوستان سے مجھے بہت شکایت ہے۔ مجھ پر چاروں طرف سے حملے ہوتے ہیں، لیکن کس طرح؟ دلیرانہ سامنے آکر حملے نہیں کیے جاتے، بلکہ گاڑی کی جھلملیوں میں سے، جھروکوں میں سے، کھڑکیوں میں سے، گھونگٹوں میں سے، آنچلوں میں سے مجھ پر تیر برسائے جاتے ہیں اور میں جواب نہیں دے سکتا۔ بارہا حملہ آوروں کے نرغے میں پھنس گیا ہوں، مگر نظر اٹھاکے دیکھتا ہوں، مدافعہ کی غرض سے نہیں، کیونکہ اس کی طاقت نہیں، بلکہ استرحام، التجا کی نیت سے۔ تو حملہ آوروں کا پتہ نہیں، چشم زدن میں غائب۔ غرفہ بند، گھونگٹ کھنچا ہوا، نقاب پڑی ہوئی ہے۔ گویا کبھی حملہ ہوا ہی نہ تھا۔ یہ انصاف ہے؟ مانا کہ ’’الحرب خدعۃ‘‘ لیکن بہادر للکار کے، خبردار کرکے حملہ کرتے ہیں۔

پھر مشرق جیسا وسیع ملک اور ہر جگہ مجھے پھانسنے کے لیے جال پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک دن میں خیال میں مستغرق، دنیا و مافیہا سے بے خبر، اپنی طرف سے اور کل عالم سے مطمئن اور شاد جارہا تھا کہ یکایک ایک اندھیرے گھپ میں داخل ہوگیا، اس اندھیرے گھپ میں جال اور وہ بھی کالا پھیلا ہوا ہے اور جتنی نکلنے کی کوشش کرتا ہوں اتنا ہی اور پھنستا جاتا ہوں، جتنا تڑپ کے باہر آنا چاہتا ہوں، اتنے ہی جال کے بند مجھے گھیرے لیتے ہیں۔ یا اللہ! میں کس بلا میں پھنس گیا۔ جب میں تھک گیا تو رضا بہ قضا، میں نے تحصیل لا حاصل کی کوشش چھوڑ دی۔ اندھیرا زیادہ تھا۔ پہلے تو مجھے دکھائی نہ دیتا تھا۔ جب نظر اس اندھیرے کی عادی ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ ایک میں ہی اکیلا یہاں نہیں ہوں۔ بلکہ اس جال میں بہت سے دل پھنسے ہوئے ہیں۔ اس سے کچھ خاطر جمع ہوئی اور خیال کیا کہ ان لوگوں سے مل کر کوئی تدبیر نکلنے کی کریں گے۔ اس لیے میں نے ان سے مخاطب ہوکر کہا، ’’بھائیو! جس مصیبت میں، میں مبتلا ہوں اس میں تم مجھ سے پہلے پھنسے ہو۔ بہر حال اس سے خلاصی پانے کی کوشش کرنی چاہیے شاعر نے

دو دل یک شود بشکند کوہ را

پراگندگی آرد انبوہ را

کہا ہے اور ہم تو دو دل نہیں، اگر میرا اندازہ غلط نہیں تو سیکڑوں دل ہیں اور یہ پہاڑ نہیں نہایت باریک جال ہے۔ یا اللہ کہہ کے سب ایک ساتھ جست کریں تو کیا عجب کہ اس جال کو توڑ دیں اور رہائی پائیں۔‘‘

عشق اسیری میں نے یہیں دیکھا۔ میری اس معقول تجویز کو سننا اور اس پر عمل کرنا کیسا، سب نے مجھے گالیاں دینی شروع کردیں ’’تم سے کس نے کہا تھا کہ تم یہاں آؤ اور آئے تھے تو ناصح بن کر تو نہ آئے ہوتے۔ اس دھوکے میں ہم نہ آئیں گے۔ بڑے آئے باتیں بنانے والے۔ ہم بھی قائل ہیں، کیا ترکیب سوچی ہے ہمیں باہر نکال کے خود اکیلے یہاں رہنا چاہتے ہیں۔ ماشاء اللہ! ماشاءاللہ! مگر

برد ایں دام بر مرغ دگرنہ

کہ عنقار ابلند است آشیانہ‘‘

مجھے نہایت غصہ آیا۔ مگر چپ ہورہا۔ اکیلا تھا کیا کرتا۔ لیکن تعجب کی بات سنیے۔ کچھ عرصہ یہاں رہنا تھا کہ ایں جانب بھی اس اسارت سے محبت کرنے لگے۔ جتنے جال کے بندکھنچتے جائیں، اتنے ہی ہم خوش ہوتے جائیں۔ خدا سے دعا مانگیں کہ الٰہی یہ بند کبھی ڈھیلے نہ ہوں، بلکہ اور تنگ ہوں۔ تاہم کبھی کبھی اپنی حالت پر افسوس بھی آتا تھا، اور جھٹکارا پانے کی خواہش ہوتی تھی۔

ایک دن عزم بالجزم کرکے اور نہایت زور سے پھڑ پھڑاکے میں وہاں سے نکل آیا۔ باہر آیا تو معلوم ہوا کہ میں ظلمات گیسو میں پھنس گیا تھا۔ اس رہائی پر خدا کا شکر کررہا تھا۔ اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آیا تھا، مگر یہاں قدم قدم پر میرا پاؤں پھسلا جاتا، (زمین نہایت چکنی تھی) کہ یکایک اڑا ڑا دھم۔

ایک کنوئیں میں تھا۔ یہاں بھی ظلمات کی طرح اور بہت سے دل تھے۔ اب چونکہ مجھے ان حضرات کا تجربہ ہوگیا تھا۔ میں نے پہلے کی طرح ان کو سمجھانے کی غلطی نہیں کی بلکہ ان سے معذرت چاہی اور کہا ’’میں مخل ہوا، مگر میں عمداً نہیں آیا، امید ہے کہ معاف فرمایا جاؤنگا‘‘ نیز یہ کہ ’’میں یہاں سے نکلنے کی جتنی جلد ممکن ہوگا کوشش کروں گا، یہاں اس قدر روشنی تھی کہ میری آنکھ خیرہ ہوئی جاتی تھی اور اس پر ستم یہ کہ کنویں کے اوپر برابر بجلی چمکی تھی، لیکن بجلی کی چمک کے ساتھ گرج تھی بلکہ نہایت لطیف، لوچدار، نغمہ ساں آواز جسے ہنسی کہہ سکتے ہیں، آتی تھی۔

یہاں سے معلوم نہیں میں نے کس طرح نجات پائی، میں تو سمجھتا ہوں محض تائید غیبی تھی۔ نکلا تو معلوم ہوا کہ میں خوش قسمتوں میں سےہوں، ورنہ چاہ ذقن میں (قارئین سمجھ ہی گئے ہونگے کہ میں رخساروں سے پھسل کے چاہ ذقن میں گر پڑا تھا) گرکے نکلنا دشوار ہے۔ برق تبسم اور نغمہ خندہ، پاگل کردیتے ہیں۔

مشرق میں، میں نے اس قدر ٹھوکریں کھائی تھیں کہ میں یہاں سے بھاگا۔ مغرب میں گیا۔ سوچا یہاں آرام و سکون نصیب ہوگا مگر آرام و سکون کیسا! یہاں بھی وہی بدنظمی، وہی لوٹ۔

بدنظمی سہی، لوٹ سہی پھر بھی مشرق کے برابر مجھے مغرب سے شکایت نہیں، یہاں لوٹ ہے، قزاقی ہے، ٹھگی نہیں، یہاں لٹیرے ڈنکے کی چوٹ پر ڈاکا ڈالتے ہیں۔

یہاں بھی میں جہاں جاتا تیروں کی بوچھاڑ مجھ پر ہوتی تھی لیکن مجھے خبر بھی دیدی جاتی تھی کہ ’’ہم تیر برساتے ہیں بچ سکتے تو بچو، بھاگو یا سینہ سپر ہو‘‘ ہاں تیر انداز، تیر چھوڑ کے غائب نہیں ہوجاتے تھے بلکہ اگر میں پوچھتا کہ کس نے تیر مارا؟ تو جواب کڑک کے ملتا، ’’ہم نے؟‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’ہمارا کام یہی ہے ہم اسی لیے پیدا کیے گئے ہیں اور ابھی تو مشق تیر اندازی ہے۔‘‘

’’ابھی صرف مشق ہی ہورہی ہے۔‘‘

بیشک ابھی صرف مشق ہی ہورہی ہے۔ جب قادر انداز ہوجاتے ہیں تو وہ تیر مارتے ہیں کہ کسی کو اتنی قوت نہیں رہتی کہ ہم سے سوال کرسکے اور ہم کبھی آڑکے پیچھے ہوکر تیر نہیں مارتے، یہ بزدلی ہے اور ہمارے اصول جنگ کے خلاف ہے۔ زیادہ سے زیادہ آڑا اگر ہم کبھی کرتے ہیں تو صرف دستی پنکھے کی کرتے ہیں، اور بس، اور یہ بھی لڑائی کے شان بڑھانے کے لیے ورنہ کوئی ضرورت نہیں۔‘‘

’’تو آپ اس بات سے شرماتے نہیں کہ آپ تیر انداز ہیں، قزاق ہیں؟‘‘

’’پھر وہی کج بحثی، کہہ تو دیا کہ ہمارا کام یہی ہے، قدرت نے ہم کو اسی لیے پیدا کیا ہے۔ کیا آفتاب کا کام ضیا پاشی نہیں ہے؟ اب اگر چمگادڑ کہے کہ تو نہ نکل۔ میں تاب نہیں لاسکتی، شبنم کہے کہ شرر فشاں نہ ہو میں فنا ہوجاؤں گی، تو وہ مظہر شان کبریائی منبع نورو روشنائی یعنی عظمت و جلالت والا، شوکت و حشمت والا آفات ان کی نہیں سنے گا یہی نہیں بلکہ نہ سننے پر مجبور ہے، قانون قدرت کا تابع ہے‘‘ مگر گستاخی معاف، وہ بھی آپ کے ہی ہم جنس ہیں جو مشرق میں چھپ چھپ کر ڈر ڈر کے ادھر ادھر دیکھ کے کہ کوئی دیکھتا نہ ہو تیر مارتے ہیں۔ یہ کیوں؟

’’دیکھا! تیر مارنے سے وہ بھی نہیں چوکتے، اب وہ اپنی اس خصلت سے نادم کیوں نظر آتے ہیں، یہ ہم نہیں جانتے، وہ جانیں اور ان کے تیر کھانے والے جانیں۔‘‘

مگر مغرب میں سب سے زیادہ ظالم (فریاد، فریاد ان کی ستموں سے ) وہ تھے جو تیر مارتے تھے، برچھیاں گھپوتے تھے، لیکن جب میں شکایت کرتا تھا تو صاف مکر جاتے تھے۔ ’’ہم نے نہیں مارا‘‘ پہلے تو میں اسے بناوٹ سمجھا۔ ملتجی نظروں سے ان کی طرف دیکھا اور عرض کیا، ’’میں آپ کو جھوٹا نہیں بنانا چاہتا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ آپ نے تیر مارا۔‘‘

میری ملتجی آنکھوں کا ان آنکھوں سے ملنا تھا کہ سیکڑوں ہزاروں تیروں کی پے درپے بوچھاڑ پڑنے لگی۔ مگر ان کو اس وقت عین اس بوچھاڑ کے وقت بھی اپنے بے تقصیری پر اصرار تھا۔

یہ ہم پر بہتان ہے، تیر ویر کیسا؟ (اور آنکھوں میں آنسو بھرلائے) ’’ہم کچھ نہیں جانتے‘‘ اور ہزاروں تیر برسادیے۔

’’تم اس قدر زخمی کیوں نظر آتے ہو۔ کس نے گھائل کیا؟‘‘

اور ایک نظر، ایک ترحم انگیز اور ہوش ربا نظر ڈالی اور ایک لاکھ برچھیوں سے مجھے چھلنی کردیا۔

’’ہے ہے، اس قدر نہ تڑپو، کس بے رحم نے تمھیں خون میں شرابور کردیا‘‘ مگر نجریا کی کٹریا سے اور کچو کے لگائیے۔

بعد میں معلوم ہوا کہ حقیقت میں انھیں اپنے ظالموں کی خبر نہیں۔ تیروں کی بوچھاڑ عمداً نہیں کی جاتی، بلکہ اپنے آپ ہوتی رہتی ہے۔ اف! اف! خدا ان تیر اندازوں سے پالا نہ ڈالے۔ کھلے بند قزاق، زخم لگاکے بھاگ جانے والے قزاق یا ٹھگ، ان سب سے میں سینہ سپر ہوسکتا ہوں اور ہوا ہوں۔ لیکن اس تیسری صنف سے تاب مقاومت نہیں۔ نہیں، بالکل نہیں۔

مغرب کیا، ساری دنیا میں میں قدیم اہل یونان سے بہت خوش ہوں، انھیں تعقل (اور خدا اس لفظ کو دنیا سے اٹھادے) حکمت پر بہت توجہ تھی۔ لیکن میری غذا (حسن) پر وہ اس سے زیادہ متوجہ تھے۔

’’وینس‘‘ وہیں نکلی اور وہ اندھا، مگر نٹ کھٹ، شریر لڑکا ’’کیوپڈ‘‘ جو ایک ہاتھ میں تیر اور دوسرے ہاتھ میں کمان لیے اور کندھوں پر لگائے اڑتا پھرتا وہیں پیدا ہوا۔ وہ مجھے زخمی کرتا تھا لیکن میں بہت خوش ہوتا تھا۔ کیوں میرے مدمقابل قزاقوں کو کو بھی وہ نہیں چھوڑتا تھا اور۔۔۔

جہنم میں جائیں آپ اور بھاڑ میں جائے میری سوانح عمری وہ سامنے سے اک بدیعہ خلقت، ایک آلہ حسن و جاذبیت، ایک مجسمہ شعر و نزاکت، سمند ناز پر سوار، مجھے شکار کرنے کے لیے آرہی ہے اور اب نہ مجھ میں اتنی طاقت اور نہ اس کی خواہش ہے کہ میں اپنے حالات بیان کروں۔ آ آ کہ میں تیری پرستش کروں۔

نوٹ، از پرائویٹ سکرٹری حضرت دل، حضرت دل بھلے چنگے تھے اور اپنے حالات لکھا رہے تھے کہ یکایک از خود رفتہ ہوگئے اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگے۔ افسوس ہے کہ سوانح عمری نا تمام رہ گئی۔ تمام قارئین سے استدعا ہے کہ ان کی صحت کے لیے دعا کریں۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.