درس محبت (1940)
by علی منظور حیدرآبادی
324689درس محبت1940علی منظور حیدرآبادی

دوست ملا تھا تجھ کو کیسا حیف اتنا بھی یاد نہیں
جان فدا کرتا تھا جس پر دل میں اس کی یاد نہیں
گردش دوراں نے جب اس کو آہ شکستہ حال کیا
دیکھ کر اس کے حال زبوں کو تو نے کچھ نہ ملال کیا
کون شکستہ حال کہاں ہے یہ بھی دھیان آیا نہ تجھے
آہ تصور نے ایسے محسن کے تڑپایا نہ تجھے
پاس تھا اپنے قول کا جس کو تو نے کچھ اس کا پاس کیا
آمد و رفت دیرینہ کا بھول کے بھی احساس کیا
اس کے درد سے واقف ہو کر تو نے خبر کیا لی اس کی
قرض محبت جان کے دل سے کیا کوئی خدمت کی اس کی
دل تیرے اس دوست کا ناحق وقف سحر لسانی تھا
میری سمجھ میں اب آیا وہ جمع و خرچ زبانی تھا
ناداں انسان تیری دولت تیرے ساتھ نہ جائے گی
لیلائے مطلب دور رہے گی تیرے پاس نہ آئے گی
حصر فقط تجھ ہی پر کیا ہے تو ہی اک زر دوست نہیں
دوست بہت ملتے ہیں لیکن ان میں اکثر دوست نہیں
دوست نہیں جو نام کی خاطر اپنے دوست کے کام آئے
دوست وہ ہے لوگوں کی زباں پر جس کا مثالاً نام آئے

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse