رنگ لایا ہے ہجوم ساغر و پیمانہ آج
رنگ لایا ہے ہجوم ساغر و پیمانہ آج
بھر گئیں سیرابیوں سے محفل رندانہ آج
بسکہ زیب محفل ہے وہ جلوہ جانانہ آج
ہے سراپا آرزو ہر عاشق دیوانہ آج
یہ ہوا بے تابیوں پر نشۂ مے کا اثر
کہہ دیا سب ان سے حال شوق گستاخانہ آج
رشک سے مٹ مٹ گئے ہم تشنہ کا مان وصال
جب ملا لب ہائے ساقی سے لب پیمانہ آج
ہے فروغ بزم یکتائی جو وہ شمع جمالی
آ گئی ہے دل میں بھی تابی پروانہ آج
ہیں سرور و وصل سے لبریز مشتاقوں کے دل
کر رہی ہیں آرزوئیں سجدۂ شکرانہ آج
حسرتیں دل کی ہوئی جاتی ہیں پامال نشاط
ہے جو وہ جان تمنا رونق کاشانہ آج
غرق ہے رنگنیوں میں مستیوں سے چور چور
ہے سراپا بے خودی وہ نرگس مستانہ آج
میہمانِ خانۂ دل ہے جو وہ رشک بہار
ہو گیا ہے غیرت فردوس یہ ویرانہ آج
مل گیا اچھا سہارا عذر مستی کا ہمیں
لے لیا آغوش میں اس گل کو بے باکانہ آج
خم لگا دے ہم بلا نوشوں کے منہ سے ساقیا
کام آئے گا نہ ساگر آج نے پیمانہ آج
دیکھئیے اب رنگ کیا لائے وہ حسن دلفریب
آئینہ پیش نظر ہے ہاتھ میں ہے کاشانہ آج
میں ہی اے حسرت نہیں محو جمال روئے یار
پڑ رہی ہیں سب کی نگاہیں وہ مشتاقانہ آج
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |