روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام
حیرت غرور حسن سے شوخی سے اضطراب
دل نے بھی تیرے سیکھ لیے ہیں چلن تمام
اللہ ری جسم یار کی خوبی کہ خودبخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
دل خون ہو چکا ہے جگر ہو چکا ہے خاک
باقی ہوں میں مجھے بھی کر اے تیغ زن تمام
دیکھو تو چشم یار کی جادو نگاہیاں
بے ہوش اک نظر میں ہوئی انجمن تمام
ہے ناز حسن سے جو فروزاں جبین یار
لبریز آب نور ہے چاہ ذقن تمام
نشو و نمائے سبزہ و گل سے بہار میں
شادابیوں نے گھیر لیا ہے چمن تمام
اس نازنیں نے جب سے کیا ہے وہاں قیام
گلزار بن گئی ہے زمین دکن تمام
اچھا ہے اہل جور کیے جائیں سختیاں
پھیلے گی یوں ہی شورش حب وطن تمام
سمجھے ہیں اہل شرق کو شاید قریب مرگ
مغرب کے یوں ہیں جمع یہ زاغ و زغن تمام
شیرینئ نسیم ہے سوز و گداز میرؔ
حسرتؔ ترے سخن پہ ہے لطف سخن تمام
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |