پائی نہ تیغ عشق سے ہم نے کہیں پناہ قرب حرم میں بھی ہیں تو قربانیوں میں ہم

٣جنوری ١٦٦١ء؁

شاہجہاں بادشاہ کی چاہیتی بیوی جس کا خطاب ممتاز محل تھا، جب مرنے لگی اور اس کا دم کھنچ کر سینہ میں آ گیا تو لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہنے لگی “اچھی! ذرا کوئی جہاں پناہ کو تو میرے پاس بلا لائے۔ مجھے کچھ وصیت کرنی ہے۔”

بادشاہ سلامت اسی وقت محل میں تشریف لائے اور ممتاز محل کو جاں کنی کی حالت میں دیکھ کر زار قطار رونے لگے۔ ممتاز محل نے کہا “جہاں پناہ! میں نے اپنے بچوں کو بڑے چاؤ چوچلوں سے پالا ہے اور ہاتھوں چھاؤں کی ہے۔ اگر میرے پیچھے یہ بے چین ہوئے تو مجھے قبر میں بے چینی ہو گی۔ خدا کو مان کے اِن کو پیٹھ نہ دینا اور اِن کی ہر طرح دلداری کرتے رہنا۔”

بادشاہ سلامت: بیگم! تمہاری اولاد تو میری آنکھوں کا تارہ اور کلیجہ کا سکھ ہے۔ تمہارا کدھر خیال ہے، میری جان تک ان کے لیے حاضر ہے۔

ممتاز محل: حضور! خدا رکھے آپ ٹھہرے مرد۔ مرد ان باتوں کو نہیں جان سکتے۔ سوکن کو سوکن کی اولاد ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے اور میاں کی پہلی بیوی کے بچوں کو بن ستائے رہتی ہی نہیں۔ بی سارہ رضی اللہ عنہا نے بی ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے جیتے جی حضرت اسمعیل علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں سنسان جنگل میں جلتی بھلستی ریت پر پھکوا دیا تھا۔ اور موئے پیچھے تو کون کسی کا لحاظ کرتا ہے اور رہ گئی تو دنیا دار بادشاہ، میں کون اور تو کون۔ دیکھیے میری آنکھ بند ہوتےہی اِن پر کیا گزرتی ہے اور میرے لاڈلے بچوں کو کس کس کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔

بادشاہ سلامت: تم خاطر جمع رکھو۔ میں ان شاء اللہ تعالیٰ دوسری شادی ہی نہیں کرنے کا، جو تمہارے پیچھے سوکن آئے اور تمہارے بچوں کو ستائے۔

ممتاز محل: بھلا قسم تو کھائیے۔

بادشاہ سلامت: خدا کی قسم، رسول کی قسم۔ بس؟

ممتاز محل: ہاں بس۔ اب مجھے یقین آ گیا اور اب میں اطمینان کے ساتھ خدا کے ہاں سدھارتی ہوں۔ لو اللہ بیلی۔

یہ کہتے کہتے ممتاز محل کا دم ہوا ہو گیا۔ ممتاز محل ماممتا کے کارن اولاد کے آرام کے لیے کیا کیا بند و بست نہ کر گئی مگر خدا کے سامنے نہ کسی شہزادی کی پیری چلتی ہے نہ کسی ملکہ کی۔ ممتاز محل کو اس بھید کی خبر نہ تھی کہ تیری کوکھ سے پیدا ہوئے بچے جن سب نے تیرے ہی پیٹ میں پاؤں پھیلائے ہیں، جو سگے بھائی بہن کہلاتے ہیں، ایک دوسرے کے نگلنے کے لیے سانپ کے سپولیے اور اژدہے بن جائیں گے اور ایک، ایک کے خون کا پیاسا ہوگا۔ بھائی، بھائی کا گلا کاٹے گا۔ سولی پر چڑھائے گا۔ آنکھوں کو نکلوا کر پاؤں سے روندے گا۔ مردے کو بازاروں اور گلی کوچوں میں گھسٹوائے گا۔ جو کچھ کربلا میں ہوا ہے، وہ دہلی آگرے میں پھر ہو گزرے گا۔ بوڑھا باپ شاہجہاں آگرہ کے جیل خانہ میں نوجوان اور رشکِ قمر بیٹوں کی سُناونی پر سناونی سُنے گا اور ہوں نہ کر سکے گا۔ اس اجمال کی تفصیل ہم کیا لکھیں۔ اسکول کے اردو پڑھنے والے بچے بھی جانتے ہیں کہ حضرت عالمگیر متقی اور درویش صفت بادشاہ نے دارا شکوہ، میرزا شجاع، میرزا مراد وغیرہ کے قتل کرنے میں جس بے رحمی اور سنگدلی سےکام لیا، اس کے تصور سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور کلیجہ مُنہ کو آ جاتا ہے۔

سُنا ہے کہ دارا شکوہ کے دو بیٹے تھے۔ ایک کا نام سپہر شکوہ اور دوسرے کا نام سلیماں شکوہ تھا۔ سپہر شکوہ نے دارا شکوہ کا مرتے دم تک ساتھ نہ چھوڑا اور دارا شکوہ کی شہادت کے بعد وہ گوالیار کے جیل خانہ میں مدت تک جیتا رہا۔ سلیماں شکوہ جان بچانے کے لیے بے نام و نشاں ہو گیا اور عالمگیر کے ہاتھ نہ لگا۔ مہینوں جنگل بیابانوں میں پڑا پھرتا رہا۔ انسان کی صورت سے ایسا ڈرتا تھا، جس طرح جنگلی ہرن پرچھائیں سے بھڑکتا ہے۔ قضا و قدر اسے سری نگر کی سرحد میں لے پہنچی۔

صبح کا سہانا وقت تھا، ایک چشمہ کے کنارے پتھر کے سہارے سے گھانس کے مخملی بچھونے پر بیٹھا ہوا اپنی صورت پانی کے آبدار آئینہ میں دیکھ رہا تھا؛ جو سری نگر کا راجہ پریوش گھوڑے پر سوار، شاہانہ لباس پہنے، ہتھیار لگائے، ہاتھ پر باز بٹھائے، شکار کھیلتا ہوا اتفاقاً آن پہنچا۔ سلیماں شکوہ کی دلفریب شکل، بڑی بڑی تیموری غلاف دار آنکھیں، سیاہ اور کمان جیسی کھنچی تنی بھویں، اونچی ناک، چھوٹا دہانہ، پتلے ہونٹ، لال لال رخسار، چاند سی پیشانی، سر سے پاؤں تک نور کے سانچہ میں ڈھلا ہوا دیکھ کر حیرا ن ہو گیا۔

راجہ: تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو۔

شاہزادہ: سچ سچ کہوں یا جھوٹ؟

راجہ: سچ ہی کہو۔ سچ دنیا میں بڑی چیز ہے۔

شاہزادہ: سچ کہنے میں مجھے جان کا خوف ہے۔

راجہ: جان کا خوف دل سے نکال ڈالو۔ اب تم سری نگر کی حد میں آگئے ہو۔ خدا چاہے تو تمہارا بال بھی بیکا نہ ہوگا۔

شاہزادہ: میرا نام سلیماں شکوہ ہے۔ شاہجہاں بادشاہِ دہلی کا پوتا اور دارا شکوہ کا بیٹا ہوں۔ مگر قسمت کا ہیٹا ہوں۔ باپ کا قتل، بھائی کی گرفتاری، چچا جان کی غدّاری، اپنی مصیبت اس طرح سُنائی کہ راجہ روتے روتے دیوانہ ہو گیا اور بڑی تعظیم تکریم سے شہر میں لے گیا اور خاص محل میں ٹھہرایا۔ اور فرمایا جب تک میری جان میں جان ہے، میں آپ کا حامی اور مددگار ہوں۔ آپ پاؤں پھیلا کر بے کھٹکا سوئیے اور جو کچھ دال دلیا موجود ہے وہ کھائیے۔ سلیماں شکوہ نے کچھ کم تین برس بسم اللہ کے گنبد میں کاٹے اور سری نگر میں رہ کر راجہ کی بدولت خوب خوب عیش کیے۔ مگر عالمگیر اس کی فکر سے غافل نہ تھا اور آخراُس نے معلوم کر لیا کہ میرا شکار سری نگر کا راجہ لے اُڑا ہے۔ پہلے تو صلح و آشتی کے خط راجہ کو بھیجے کہ ہمارا آپ کا واحد معاملہ ہے۔ اچھے دل بُرے نہ کرو اور سلیماں شکوہ کو میرے پاس بھیج دو۔ مگر جب دیکھا کہ راجہ کسی طرح نرم نہیں ہوتا اور ٹکا سا جواب دیتا ہے تو لشکر کشی کی دھمکی دی۔ مگر راجہ بات کا پکا اور قول کا سچا تھا۔ وہ عالمگیر کے اس ڈراوے کو بھی خاطر میں نہ لایا اور سلیماں شکوہ کو نہ بھیجنا تھا اور نہ بھیجا۔

اورنگ زیب کے دل میں بھتیجے کی زندگی کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ اس نے اس کے پکڑوا بلانے کے واسطے ایک اور جُل کھیلا، اور ایک اور راجہ کو جو بڑا مدبر اور عقیل تھا اور سری نگر والے راجہ سے اُس کی دانت کاٹی روٹی تھی، بیچ میں ڈالا اور سلیماں شکوہ کے بھیج دینے کی اُس سے سفارش چاہی۔ مدبر راجہ نے اس کام کا بیڑا اُٹھایا اور دوست کو ایسا جھانسا دیا کہ اس نے بے گناہ سلیماں شکوہ کو پا بہ زنجیر کر کے دہلی روانہ کر دیا۔

سلیماں شکوہ کا دہلی میں داخل ہونا حضرت یوسف علیہ السلام کے پہلے پہل مصر میں داخل ہونے کے برابر تھا۔ بازاروں میں خلقت کے ہجوم ٹھٹھ لگ گئے تھے۔ تھالی پھینکو تو سروں پر ہی جاتی تھی۔ تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ در و دیوار اور چھت اور کوٹھوں پر عورتیں اور بچے پٹے پڑے تھے اور اُس نامراد کی نوجوانی پر آٹھ آٹھ آنسو رو رہے تھے۔ جب اُس کی سارے شہر میں تشہیر ہو لی تو نواب سعد اللہ خاں وزیر کو حکم ہوا کہ تم جاؤ اور اُس نالائق کا سر اپنے روبرو کٹوا کر ہمارے سامنے لاؤ۔ مگر جب سعد اللہ خاں نے جا کر سلیماں شکوہ کی پیاری صورت دیکھی تو جی جان سے اس پر فدا ہو گیا اور اس کا دل بھر آیا۔ کئی گھنٹہ تک اس سوچ میں رہا کہ اس یوسفِ ثانی کو بے سبب بے وجہ کیونکر جلّاد کے حوالہ کر دوں۔

آخرکار رحم دل وزیر ایک منصوبہ سوچ کر حضور میں حاضر ہوا اور دست بستہ عرض کی “جہاں پناہ! قیدی سے حسب دستور پوچھا گیا کہ اگر کوئی ارمان یا حسرت تیرے دل میں ہو تو بیان کر۔ قیدی نے کہا کہ میری آخری آرزو یہ ہے کہ مرنے سے پہلے ایک بار بادشاہ ظل اللہ کا دیدار دیکھ لوں۔ چونکہ حجت شرعی تھی اس لیے اس کے قتل میں درنگ کی گئی۔ اب جو حکم سلطانی ہو بجا لائیں۔”

عالمگیر (ناک بھوں چڑھا کر): خیر اب تو مغرب کا وقت قریب ہے۔ اس وقت ہم اُس ناشدنی کو اپنے سامنے نہیں بلا سکتے ہیں۔ کل دس بجے دن کے اس کو اور جلاد دونوں کو دربار میں حاضر کرو۔ سعد اللہ خاں سلام کر کے دل میں خوش ہوتا ہوا پیچھے ہٹا اور رات کی رات سلیماں شکوہ کی جان بچ گئی۔ سعد اللہ خاں نے یہ تدبیر محض اس مصلحت سے کی تھی کہ شاید عالمگیر اپنے بھتیجے کے حسن و جمال کو دیکھ کر پسیج جائے اور اس بے خطا کی خطا معاف ہو جائے۔

بات کی بات میں صبح ہو گئی اور گل نے کسی مقتولِ جفا کے ماتم میں اپنا نازک پیرہن چاک کر ڈالا اور باغ کا پتہ پتہ اُس کے آنسوؤں سے رونے میں مشغول ہوا۔ آفتاب نکل آیا اور اس کی لمبی کرنیں جو شفق کی سرخی طے کر کے زمیں پر پہنچیں تو یہ معلوم ہوا کہ کسی نوجوان خورشید رخسار کا سر نیزہ پر چڑھایا گیا ہے، جس کی شہ رگوں سے خوں ٹپک رہا ہے۔

دیوان عام میں اورنگ زیب عالمگیر نے تخت جواہر نگار پر جلوس فرمایا۔ وزیر، امیر، منصب دار، ہفت ہزاری، پنج ہزاری، خاص و عام اپنے اپنے رتبہ اور عہدہ کےمقاموں پر دست بستہ کھڑے ہوئے۔ جس وقت سلیماں شکوہ دس سپاہیوں کی حراست میں تلواروں کے سایہ تلے دیوان عام کی تیسری سیڑھی پر پہنچا تو اتفاقاً اُس کی آہنی بیڑی پتھر سے جا لگی اور اُس کی جھنکار سے سارا ایوان گونج اُٹھا۔ بیڑی زبان حال سے ظفرؔ کا یہ شعر پڑھ کر عالمگیر کو سُناتی تھی:

پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی

حکم ہوا کہ بیڑی کاٹ دی جائے، صرف ہاتھوں میں سونے کی زنجیر پڑی رہے۔ سلیماں شکوہ نے جب اپنے تئیں عالمگیر کے آگے اور جلاو کو ننگی تلوار لیے پیچھے دیکھا تو تھرتھر کانپنے لگا، چاند سے چہرے کو گہن لگ گیا، منہ کے اندر زبان خشک ہو گئی، ہونٹوں پر پپڑیاں جم گئیں، دل دھڑکنے لگا، سر پھرنے لگا۔ سارا دربار پیکر تصویر بن گیا تھا اور اُس مظلوم کا منہ تک رہا تھا۔ عالمگیر نے جھلا کر سلیماں شکوہ سے کہا “کہو برخوردار کیا حال ہے؟”

سلیماں شکوہ (شعر):

حالِ من از ہجر دارا کمتر از یعقوب نیست او پسر گم کردہ بود و من پدر گم کردہ ام

عالمگیر: سعد اللہ خاں! تم نے دیکھا، موت سر پر کھیل رہی ہے اور حواس وہ درست ہیں کہ شعر تصنیف ہو رہے ہیں۔ اور جو زندگی کی کچھ دنوں آس ہو تو شاید آسمان کے تارے توڑ لائے۔ یہ زندہ رکھنے کے قابل ہے؟ توبہ توبہ! افعی کشتن و بچہ اش رانگاہ داشتن کار خرد منداں نیست۔ بہت اچھا، اگر آپ اپنے ابا جان کے فراق میں بے چین ہیں تو ہم آپ کو ابھی اُن کے پاس ہمایوں کے مقبرہ میں دست بدست پہنچوائے دیتے ہیں۔

سلیماں شکوہ (عالمگیر سے مخاطب ہو کر، شعر):

پس از مردن گر آئی بے مروت بر مزارِ من بہ تعظیم تو خوش مستانہ برخیزد غبارِ من

عالمگیر (جلاد سے مخاطب ہو کر): ہُوں!

ہُوں کے ساتھ پیچھے سے جلاد کی تلوار سلیماں شکوہ کی گردن پر پڑی اور اُس بے کس کا سر تن سے جدا ہو کر چار قدم دور جا پڑا۔ اِنا لِلہِ و اِنا اِلیهِ راجِعون۔

میری جان! یہ جھوٹی کہانیاں نہیں ہیں، سچے قصے ہیں۔ا گر آپ کو یقین نہ ہو تو میرے ساتھ ہمایوں کے مقبرے میں تشریف لے چلیے۔ مقبرے کے صحن میں سنگ مرمر کی مزار کے پاس جو دراصل دارا شکوہ کا مرقد ہے، میں آپ کو اس نامراد کی قبر دکھا سکتا ہوں۔ جس پر حسرت کا شامیانہ کھنچا ہوا ہے اور یاس و الم کی جھالر لٹک رہی ہے۔ داغ:

حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے


تمام شد