صدائے درد

صدائے درد (1924)
by محمد اقبال
295803صدائے درد1924محمد اقبال

جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیطِ آبِ گنگا تو مجھے
سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا، یاں تو اک قُرب فراق آمیز ہے
بدلے یک رنگی کے یہ ناآشنائی ہے غضب
ایک ہی خرمن کے دانوں میں جُدائی ہے غضب
جس کے پھُولوں میں اخوّت کی ہوا آئی نہیں
اُس چمن میں کوئی لُطفِ نغمہ پیرائی نہیں
لذّتِ قُربِ حقیقی پر مِٹا جاتا ہوں میں
اختلاطِ موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں

دانۂ خرمن نما ہے شاعرِ معجزبیاں
ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں
حُسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو
ذوقِ گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں
میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں
کب زباں کھولی ہماری لذّتِ گفتار نے!
پھُونک ڈالا جب چمن کو آتشِ پیکار نے


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.