علم کو پرہیزگاری چاہئے

علم کو پرہیزگاری چاہئے (1934)
by ابومحمد سید حسین سیفی
324649علم کو پرہیزگاری چاہئے1934ابومحمد سید حسین سیفی

علم کو پرہیزگاری چاہئے
گلشنوں کو آبیاری چاہئے

سب کو خواہش ہے حکومت کی مگر
ہمتوں میں پائیداری چاہئے

ایک بو کر کاٹتے ہیں جب ہزار
بے زروں کی کشتکاری چاہئے

گرد اونچی ہو کے بنتی ہے غبار
خاکیوں کو خاکساری چاہئے

تخم بوتے ہی نہیں ملتے ثمر
ہر جگہ امیدواری چاہئے

حکمرانوں کے لئے ہے لازمی
یوں تو سب کو رازداری چاہئے

کہہ رہے ہیں تجربے یورپ کے یہ
عورتوں کو پردہ داری چاہئے

عیش کی جا خوش دلی درکار ہے
غم کدے میں سوگواری چاہئے

ختم پر ہر رنج کے جب عیش ہے
عاصیوں کو اشک باری چاہئے

حاکموں کی مہربانی کے لئے
محنت و خدمت گزاری چاہئے

دین و دنیا کی مسرت کے لئے
مرد و زن میں خوش گواری چاہئے

عفو کو حجت سے جب سیفیؔ ہے بغض
خاطیوں کو شرمساری چاہئے

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse