مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا

مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا
by میر تقی میر

مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا
القصہ میرؔ کو ہم بے اختیار پایا

احوال خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے
افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا

جیتے جو ضعف ہو کر زخم رسا سے اس کے
سینے کو چاک دیکھا دل کو فگار پایا

شہر دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں
آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا

اتنا نہ تجھ سے ملتے نے دل کو کھو کے روتے
جیسا کیا تھا ہم نے ویسا ہی یار پایا

کیا اعتبار یاں کا پھر اس کو خوار دیکھا
جس نے جہاں میں آ کر کچھ اعتبار پایا

آہوں کے شعلے جس جا اٹھتے تھے میرؔ سے شب
واں جا کے صبح دیکھا مشت غبار پایا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse