مثال سایہ محبت میں جال اپنا ہوں

مثال سایہ محبت میں جال اپنا ہوں
by میر تقی میر

مثال سایہ محبت میں جال اپنا ہوں
تمہارے ساتھ گرفتار حال اپنا ہوں

سرشک سرخ کو جاتا ہوں جو پیے ہر دم
لہو کا پیاسا علی الاتصال اپنا ہوں

اگرچہ نشہ ہوں سب میں خم جہاں میں لیک
برنگ مے عرق انفعال اپنا ہوں

مری نمود نے مجھ کو کیا برابر خاک
میں نقش پا کی طرح پائمال اپنا ہوں

ہوئی ہے زندگی دشوار مشکل آساں کر
پھروں چلوں تو ہوں پر میں وبال اپنا ہوں

ترا ہے وہم کہ یہ ناتواں ہے جامے میں
وگرنہ میں نہیں اب اک خیال اپنا ہوں

بلا ہوئی ہے مری گو کا طبع روشن میرؔ
ہوں آفتاب ولیکن زوال اپنا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse