مستی کے پھر آ گئے زمانے
مستی کے پھر آ گئے زمانے
آباد ہوئے شراب خانے
ہر پھول چمن میں زر بہ کف ہے
بانٹے ہیں بہار نے خزانے
سب ہنس پڑے کھلکھلا کے غنچے
چھیڑا جو لطیفہ صبا نے
سر سبز ہوا نہالِ غم بھی
پیدا وہ اثر کیا ہوا نے
رندوں نے پچھاڑ کر پلا دی
واعظ کے نہ چل سکے بہانے
کر دوں گا میں ہر ولی کو میخوار
توفیق جو دی مجھے خدا نے
ہم نے تو نثار کر دیا دل
اب جانے وہ شوخ یا نہ جانے
بیگانۂ مئے کیا ہے مجھ کو
ساقی کی نگاہِ آشنا نے
مسکن ہے قفس میں بُلبلوں کا
ویراں پڑے ہیں آشیانے
اب کاہے کو آئیں گے وہ حسرتؔ
آغازِ جنوں کے پھر زمانے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |