نکلے ہے جنس حسن کسی کارواں میں

نکلے ہے جنس حسن کسی کارواں میں
by میر تقی میر

نکلے ہے جنس حسن کسی کارواں میں
یہ وہ نہیں متاع کہ ہو ہر دکان میں

جاتا ہے اک ہجوم غم عشق جی کے ساتھ
ہنگامہ لے چلے ہیں ہم اس بھی جہان میں

یا رب کوئی تو واسطہ سرگشتگی کا ہے
یک عشق بھر رہا ہے تمام آسمان میں

ہم اس سے آہ سوز دل اپنا نہ کہہ سکے
تھے آتش دروں سے پھپھولے زبان میں

غم کھینچنے کو کچھ تو توانائی چاہیے
سویاں نہ دل میں تاب نہ طاقت ہے جان میں

غافل نہ رہیو ہم سے کہ ہم وے نہیں رہے
ہوتا ہے اب تو حال عجب ایک آن میں

وے دن گئے کہ آتش غم دل میں تھی نہاں
سوزش رہے ہے اب تو ہر اک استخوان میں

دل نذر و دیدہ پیشکش اے باعث حیات
سچ کہہ کہ جی لگے ہے ترا کس مکان میں

کھینچا نہ کر تو تیغ کہ اک دن نہیں ہیں ہم
ظالم قباحتیں ہیں بہت امتحان میں

پھاڑا ہزار جا سے گریبان صبر میرؔ
کیا کہہ گئی نسیم سحر گل کے کان میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse