وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں
وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں
آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں
بے زبانی ترجمانی شوق بے حد ہو تو ہو
ورنہ پیشِ یار کام آتی ہیں تقریریں کہیں
مِٹ رہی ہیں دل سے یادیں روز گارِ عیش کی
اب نظر کاہے کو آئیں گی یہ تصویریں کہیں
التفات یار تھا اک خوابِ آغازِ وفا
سچ ہوا کرتی ہیں ان خوابوں کی تعبیریں کہیں
تیری بے صبری ہے حسرتؔ خامکاری کی دلیل
گریۂ عشاّق میں ہوتی ہیں تاثیریں کہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |