کیا میں نے رو کر فشار گریباں

کیا میں نے رو کر فشار گریباں
by میر تقی میر

کیا میں نے رو کر فشار گریباں
رگ ابر تھا تار تار گریباں

کہیں دست چالاک ناخن نہ لاگے
کہ سینہ ہے قرب و جوار گریباں

نشاں اشک خونیں کے اڑتے چلے ہیں
خزاں ہو چلی ہے بہار گریباں

جنوں تیری منت ہے مجھ پر کہ تو نے
نہ رکھا مرے سر پہ بار گریباں

زیارت کروں دل سے خستہ جگر کی
کہاں ہوگی یا رب مزار گریباں

کہیں جائے یہ دور دامن بھی جلدی
کہ آخر ہوا روزگار گریباں

پھروں میرؔ عریاں نہ دامن کا غم ہو
نہ باقی رہے خار خار گریباں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse