ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
by میر تقی میر

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

قسم جو کھائیے تو طالع زلیخا کی
عزیز مصر کا بھی صاحب اک غلام لیا

خراب رہتے تھے مسجد کے آگے مے خانے
نگاہ مست نے ساقی کی انتقام لیا

وہ کج روش نہ ملا راستے میں مجھ سے کبھی
نہ سیدھی طرح سے ان نے مرا سلام لیا

مزا دکھاویں گے بے رحمی کا تری صیاد
گر اضطراب اسیری نے زیر دام لیا

مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

اگرچہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میرؔ
پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse