ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
جو چاہو سزا دے لو تم اور بھی کھل کھیلو
پر ہم سے قسم لے لو کی ہو جو شکایت بھی
دشوار ہے رندوں پر انکار کرم یکسر
اے ساقئ جاں پرور کچھ لطف و عنایت بھی
دل بسکہ ہے دیوانہ اس حسن گلابی کا
رنگیں ہے اسی رو سے شاید غم فرقت بھی
خود عشق کی گستاخی سب تجھ کو سکھا دے گی
اے حسن حیاپرور شوخی بھی شرارت بھی
برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی
بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی
عشاق کے دل نازک اس شوخ کی خو نازک
نازک اسی نسبت سے ہے کار محبت بھی
رکھتے ہیں مرے دل پر کیوں تہمت بیتابی
یاں نالۂ مضطر کی جب مجھ میں ہو قوت بھی
اے شوق کی بیباکی وہ کیا تیری خواہش تھی
جس پر انہیں غصہ ہے انکار بھی حیرت بھی
ہر چند ہے دل شیدا حریت کامل کا
منظور دعا لیکن ہے قید محبت بھی
ہیں شادؔ و صفیؔ شاعر یا شوقؔ و وفاؔ حسرتؔ
پھر ضامنؔ و محشرؔ ہیں اقبالؔ بھی وحشتؔ بھی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |