یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں

یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں
by میر تقی میر

یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں

ایک ایک قرط دور میں یوں ہی مجھے بھی دو
جام شراب پر نہ کرو میں نشے میں ہوں

مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ
جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو میں نشے میں ہوں

یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانند جام مے
یا تھوڑی دور ساتھ چلو میں نشے میں ہوں

معذور ہوں جو پاؤں مرا بے طرح پڑے
تم سرگراں تو مجھ سے نہ ہو میں نشے میں ہوں

بھاگی نماز جمعہ تو جاتی نہیں ہے کچھ
چلتا ہوں میں بھی ٹک تو رہو میں نشے میں ہوں

نازک مزاج آپ قیامت ہیں میرؔ جی
جوں شیشہ میرے منہ نہ لگو میں نشے میں ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse