Page:Biwi-ki-tarbiyat-khwaja-hasan-nizami-ebooks.pdf/16

This page has not been proofread.

بیوی کی تربیت از خواتین نظامی جب کہتیں یوں کہتیں ”آؤ حسین کے آتا آؤ ۔ آؤ حسین کے نانا آؤ ۔ آؤ حسین کے ماموں آؤ “ خواجہ بانو نے کبھی یہ نہیں کہا د کچھ حسین بیوی شادی آئی ۔ دیکھ دال چپاتی آجائیگی ۔ یعنی وہ بچہ کو ڈرانے کی کوشش نہیں کرتیں ۔ کیونکہ اس طرح بچے ڈرپوک ہوجاتے ہیں ۔ اس کے عوض ان کا عمل یہ ہے کہ جہاں بچہ نے مند گی یا رویا ۔ یا محلا تو وہ اسکو اکیلا چھوڑ دیتی ہیں ۔ یا پاس رہتی ہیں تو اسکی صند کی پروا نہیں کرتیں اور خاموش بیٹھی رہتی ہیں یہاں تک کہ بچہ خود ہی ٹیکا ہو جاتا ہے اور دوبارہ ضد کرنے کی ہمت اس کو نہیں ہوتی ۔ کیونکہ بچوں کی ضد اور مچلنا ماں باپ یا پالنے والوں کی ناز پر داری کے سبب بڑھا کرتا ہے ۔ اگر مہر وقت لاڈ نہ کیا جائے تو وہ آپ ہی ضد چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہاں ایک دشواری کا ذکر کرنا ضرور ہے کہ گھروں میں آدمی یافتہ سمجھ دار نہیں ہوتے ، بلکہ زیادہ امداد و نجی اور میرا نے دستوروں پر چلنے والوں کی ہوتی ہے جو نئی اصلاحی باتوں کو نہیں ہے اس سے بڑا نقصان ہوتا ہے کہ ایک آدمی تو بچہ کی اصلاح اور تعلیم بخیر و تربیت کی بات کہتا ہے یا بچہ کوسکھانی بیانی کیا ہتا ہے ۔ اور تیار آدمی اسکے غلات کہتے پا کرتے ہیں تو بچے کی تربیت خاک میں ، مل جاتی ہے ۔ میں خود اپنے گھر میں یہ دیکھتا ہوں ۔ کیسین کی ماما ایک ایسی عورت ہے جس نے مجھکو پالا تھا اور مجھکو اس کا لحاظ کرنا پڑتا ہے ۔ وہ مردوں کی طرح مضبوط عورت ہے اسی برس کی عمر ہے ، مزن بھر وجھ سر پر رکھکر بچے میں آسانی سے پیدل چلی جاتی ۔ م IN 3.-√√