کیا کبھی تم پر بھی کوئی عاشق ہوا ہے؟

کیا کبھی تم پر بھی کوئی عاشق ہوا ہے؟
by مرزا عظیم بیگ چغتائی
319590کیا کبھی تم پر بھی کوئی عاشق ہوا ہے؟مرزا عظیم بیگ چغتائی

ایک تو وہ لوگ ہیں جن کو خوبصورت ترین ہستی یعنی خدانے اپنےہاتھ سے بنایا ہے جیسے رسالوں کے ایڈیٹر۔ یا شیطان کے کان بہرے، خود ہماری گھر والی اور دوسرے وہ لوگ ہیں جن کو شاید خدائے تعالیٰ نے فرشتوں سے ٹھیکے پر بنوایا ہے اور ان ٹھیکیداروں نے ہم کو اس تیزی سے بنا بنا کر پھینکا ہے کہ کہیں کسی افسانہ نگار کے پتلے پر کسی سیٹھ صاحب کا پتلا گرا تو کسی وکیل پر گاما کا پتلا گرا، تو افسانہ نگار صاحب اور وکیل صاحب کی ناک کہیں پہنچی، ہونٹ کہیں پہنچے اور جب روح پھونکی گئی تو اچھے خاصے ’’حلوقہ‘‘ بن گئے۔

پھر اس پر طرہ یہ کہ بہ ایں شکل و صورت خدائے تعالیٰ نےان کے مختصر سینے کو محبت کے نور سے کوہ سینا بنا دیا۔ اب جو جوانی پر پہنچے ہیں تو دل کا یہ حال کہ ہر ایک کو دینے کو تیار ہیں۔ مصیبت یہ کہ حلیہ شریف کو دیکھتے ہوئے کوئی کانی کھتری بھی محبت کی روادار نہیں۔ نتیجہ یہ کہ کوئی لڑکی ان پرعاشق نہیں ہوتی۔ سنتے ہیں کہ فلاں عورت فلاں شخص پر عاشق ہوگئی۔ فلاں لڑکی فلاں کے ساتھ بھاگ گئی۔۔۔ مگر کوئی نہیں بھاگتی تو ہمارے ساتھ۔ کوئی نہیں عاشق ہوتی تو ہم پر، مجبور ہوکر دغا فریب سے گھر والی کو ڈھونڈتے ہیں اور پھر دن رات اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ کہیں گھر والی کے دل سے بھی نہ اترجائیں۔

(۱)

ایک روز کا ذکر ہے کہ میں ایک مقدمے کی بحث تیار کر رہا تھا کہ اتنے میں گھر والی دوڑی ہوئی آئی۔ بدحواسی کا عالم اور مجھ سے گھبرا کر کہا کہ جمیا فجو خاں سپاہی کے ساتھ بھاگ گئی۔ اب میں کیا عرض کروں کہ اس خبر کو سنتے ہی مجھ پر کیا گزری۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ فجو خاں کو خوش قسمت خیال کروں یا محترمہ جمیا کے انتخاب کی داد دوں۔ پہلے یہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو یہ بتلا دوں کہ یہ جمیا کون تھی۔

گندمی رنگ، کتابی چہرہ، کھڑی ناک اور پتلے ہونٹوں والی ایک پندرہ برس کی لڑکی تھی۔ میں اکثر دیکھتا کہ سامنے سڑک پر بل کھاتی گھومتی، نہایت چلبلے پن سے گنگناتی بالکل اپنی رنگ برنگی اوڑھنی میں ایک رنگین تتلی کی طرح ہوا میں چٹکیاں سی بجاتی چلی جا رہی ہے۔ برخلاف اس کے فجو خاں ایک ۴۵ برس کے بھوت۔ اس سے زیادہ ان کے سپاہیانہ حسن کی نہ تو میں تعریف کر سکتا ہوں اور نہ کرنا چاہتا ہوں۔ معاً مجھے خیال ہوا کہ دیکھو تو اس جمیا کو کہ پڑوس میں اول تو ہم خود رہتے ہیں۔ گو خوبصورت تو نہیں ہیں مگر بھوت بھی نہیں ہیں۔ علاوہ ہمارے عبد العزیز رہتے ہیں اور ایک سے ایک خوبصورت جوان رہتا ہے مگر اس کمبخت چھوکری نے ہم لوگوں میں سے کسی کو پوچھا تک نہیں۔ اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اگر وہ کہتی تو میں اس کے ساتھ بھاگ جاتا یا کسی طرح بھی اس کو اپنے اوپر عاشق ہو جانے کی اجازت دے دیتا۔

مطلب میرا در اصل یہ ہے کہ اسے تو کم سے کم ایسا نہ کرنا چاہیے تھا اور گوہم راضی نہ ہوتے پھر بھی یہ کیسے ممکن ہے کہ ہماری طبیعت خوش نہ ہوتی۔ سو پکڑے گئے اور مجھے وکیل کیا۔ اب اس مقدمے کی بحث تیار ہو رہی تھی۔ ہمارے ملزم کی طرف سے عذر یہ تھا کہ صاحب لڑکی تو ہم نے ضرور بھگائی مگر واقعہ یوں ہے کہ خود لڑکی اپنی راضی خوشی سے ملزم پر عاشق ہو کر اور زور دے کر اس کے ساتھ چل دی۔ ملزم نے اپنی داستان عشق اپنے اقبالی بیان میں بڑی دلچسپی سے بیان کی تھی۔ کس طرح لڑکی اسے ملی، کس طرح لیلیٰ کی طرح وہ ان حضرت پر عاشق ہوگئی اور پھر کس طرح ع ’’کچھ ایسا دونوں طرف عشق کا اثر پھیلا۔۔۔‘‘ کہ میرے مؤکل صاحب اپنی محبوبہ کو لے کر فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔

میں صحیح عرض کرتا ہوں کہ میرے مؤکل صاحب نے جب گھر پر یہ قصہ بیان کیا اور سچ سچ حال بتایا تو میں نے اول تو ان کی صورت دیکھی بہت غور سے، یہ دیکھنے کو کہ یا اللہ میں زیادہ خوبصورت ہو ں یا یہ؟ کالا ہونا اول تو کوئی جرم نہیں اور پھر یہ واقعہ ہے کہ خوبصورتی اور بدصورتی سے اسے گو تعلق قطعی نہیں ہے، لیکن جب دوسرے اعضا یعنی آنکھ، ناک، ہونٹ وغیرہ بغاوت پر آمادہ ہوں تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیاہی سونے پر سہاگے کا کام دیتی ہے۔ چنانچہ میں نےغور سے اپنے مؤکل کے چہرے کو دیکھا اور کچھ مشکوک نگاہوں سے دیکھ کر ان سے کہا کہ دیکھو بھئی وکیل سے تو سچ سچ دل کا حال بیان کرتے ہیں۔ تم سچ سچ بات بتاؤ۔ یہ سن کر مؤکل صاحب نے مجھے اچھی طرح سمجھا کر کہا کہ جو واقعہ بیان کیا ہے اس میں قطعی شک کی گنجائش نہیں اور یہ کہہ کر اور بھی تفصیل کے ساتھ مفرورہ کے معاشقے کی داستان سنائی۔

قصے پر میں نے یقین کر لیا۔ مفرورہ سے جرح کی تو اس سے بھی یہی اندزہ لگاکہ ضرور بالضرور لڑکی ملزم پر عاشق ہوئی۔ واقعات مقدمے سے بھی اس کی تائید ہوئی اور وہ بھی اس طرح کہ مقدمہ میں کامیابی کی قطعی امید ہوگئی اور بحث اب تیار ہو رہی تھی۔ یہ تو سب کچھ ہوگیا، لیکن جس روز سے یہ مقدمہ آیا، میں خود ایک رنج و فکر میں پڑ گیا۔ ممکن نہیں ہے ورنہ میں اپنا اورملزم کا فوٹو پیش کر کے ثابت کر دیتا کہ حضرت میں اپنےمؤکل سے ہزار درجہ خوبصورت ہوں۔ وہ ادھیڑ ہے او رمیں نوعمر ہوں۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ بدقسمتی کچھ اس طرح شامل حال رہی ہے اور رہے گی کہ دنیا زمانہ پر، کانے کھتروں پر، نکٹے کانوں پر تو ایک پری نژاد اور حور شمائل لڑکی عاشق ہو جائے اور نہ ہو تو ہم پر۔ جب کبھی بھی اس بات پر غور کیا افسوس ہی کرنا پڑا۔

بجائے اس کے کہ کوئی خدا کی بندی عاشق واشق ہوتی، اپنی زندگی کا تجربہ بدقسمتی سے یہ رہا کہ خوبصورت اور بدصورت لڑکیوں کے تلخ اور کٹے چھنے جملے ہی سننے میں آئے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ جی تو ہمیشہ یہی چاہا کیا کہ آئینے میں اپنی صورت دیکھ کر ایک پانچ۔۔۔ روزانہ مارے جائیں۔ آپ کسی سے پوچھیے کہ کیوں بھئی کبھی تم پر کوئی عاشق ہوا ہے؟ تو جواب میں آپ ایک سے ایک دلچسپ داستان سنیں گے۔ ہم نے بھی دیکھا دیکھی اسی قسم کے بالکل جھوٹے قصے گڑھ گڑھ کر دل سے اپنے یار دوستوں کو سنائے ہیں۔ وہ بات اور تھی، لیکن اب یہاں اس مضمون میں مجھے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اگر جھوٹ لکھوں گا توآپ لوگوں کا تو کچھ نہیں، کہیں کوئی ’’اور‘‘ اس قصے کو سچ نہ مان لے تو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ لہٰذا سچ سچ کہوں گا۔ یہ بھی سن لیجیے کہ کس طرح اس سچ بولنے کی ضرورت پڑ گئی۔

(۲)

جمیا کے قصہ پر جب رد و قدح ہو چکی تو کام کے بارے میں خانم نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو۔ میں نے اس کے جواب میں ہنس کر کہا کہ ’’ذرا اسے سنو۔‘‘ اور یہ کہہ کر ملزم کی طرف سے جو بیان تحریری میں نے داخل کیے تھے، وہ پڑھ کر خانم کو سنانا شروع کیے۔ یہ بیان سات صفحوں پر تھے اور شاید ایک افسانہ نویس وکیل کے قلم کے ہونے کی وجہ سے اس میں اور بھی دلچسپی آگئی ہوگئی۔ خانم نے جو بیان غور سے سنے تو کہنے لگی کہ یہ کسی رسالے کے لیے مضمون لکھا ہے یا سچ مچ مقدمے کے بیان ہیں۔

قصہ مختصر، یہ بیان خانم نے بڑے غور اور شاید ’’عبرت‘‘ سے سنے۔ میں ان بیانات کو سنا کر خانم کو غور سے دیکھنے لگا۔ وہ بھی مجھے غور سے دیکھنے لگی۔ میں اپنے دل میں کیا سوچ رہا ہوں گا؟ بخدا اندازہ لگائیے اور میں نے دل میں یہ سوچا کہ یہ کیا سوچ رہی ہوگی۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ ان بیانات پر مفرورہ اور ملزم کی صورت شکل پر خانم نے بحث شروع کر دی۔ یہ بحث ختم ہوگئی تو میں نے کامیابی کے ساتھ خانم کو احتیاطاً یہ بھی سمجھا دیا کہ مردوں کے لیے سچ مچ یہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ ان پر عاشق ہونے کی تیاری کرنے سے پہلے خوبصورت لڑکیاں یہ دیکھیں کہ مرد خوبصورت ہے یا بدصورت۔ کانا ہے یا کھترا۔ بس انہیں تو تہیہ کرکے عاشق ہو جانا چاہیے۔ خانم نے یہ قصہ سن کر اپنی آنکھوں میں ایک ایسی دلچسپی کی چمک پیدا کر کے مجھ سے ہنس کر کہا کہ ایک بات تم سے قسم دے کر پوچھیں گے۔ سچ سچ بتاؤ گے یا نہیں؟

میں نے کہا، ’’وہ کیا؟‘‘ وہ بولی، ’’پہلے وعدہ کرو۔ قسم کھاؤ۔‘‘ میں نے فوراً خدا کی ایک موٹی سی قسم کھائی تو وہ بولی کہ ’’یوں نہیں۔ ہماری قسم کھا کر وعدہ کرو۔‘‘ مجبوراً یہ قسم بھی کھائی۔ ویسے تو نہ کھاتے مگر اس وقت سوال معلوم کرنے کی کرید پڑ گئی۔ جب قسم کھالی تو اس نے ذیل کا ’’ہنگامہ پرور‘‘ سوال کر دیا، ’’سچ سچ بتانا۔ کبھی تم پر بھی کوئی لڑکی عاشق ہوئی ہے یا نہیں؟‘‘

مندرجہ بالا سوال نےمجھ کو کس شش و پنج میں ڈال دیا ہوگا! ذرا اندازہ لگائیے۔ اپنی رفیق زندگی کی قسم کھا کر جھوٹ بولنا ناممکن، اگر سچ سچ کہتا ہوں تو معاملہ بگڑا جاتا ہے۔ کیونکہ صحیح اور امر واقعی جو پوچھیے تو وہ ہمیشہ اسی تمنا میں رہے کہ کوئی ہم پر عاشق تو ہو۔ مگر یہ تمنا کبھی پوری نہ ہوئی اور قسمت میں خوبصورت اور ’’بے صورت‘‘ لڑکیوں کے اپنے مردانہ حسن کے بارے میں تلخ ریمارک اور تکلیف پہنچانے والے جملے ہی اس تمنائے عشق کی مکمل و مفصل روئداد ہو کر رہ گئے جو اب بھی کانوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ مگر نہیں۔ میں نے شاید یہاں غلطی کی۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے اوپر بھی تین لڑکیاں عاشق ہوئی ہیں۔ ایک تو خود سر پکڑ کر قسمت کو رو رہی ہے یعنی صاحبہ سوال۔ تو اس کا ذکر ہی جانے دیجیے کہ وہ عاشق نہ ہو تو کرے بھی کیا۔ وہ مضمون ہے کہ کھاؤ تو بیگن کا بھرتہ اور نہیں کھاؤ تو بیگن کا بھرتہ۔ پچاس دفعہ عرض پڑے تو عاشق ہو ورنہ جانے دو۔ اس جھگڑے ہی کو چھوڑو۔ لہٰذا اس کو چھوڑیے۔

دوسری جو عاشق ہوئی تھی اس کے بارے میں عرض ہے کہ اس کی یاد میرے دل سے کبھی نہیں مٹ سکتی۔ اس کی دلچسپ یا داب بھی دل میں تازہ ہے اور رہے گی تا وقتیکہ شریر بچے مچلنا اور ضد کرنا بالکل چھوڑ دیں کیونکہ صحیح عرض ہے کہ کچھ کچھ اسی کا حلیہ اور نقشہ بیان کرکے شریر بچوں کو ڈرایا جاتا ہے، جب کہیں جاکے شریر قابو میں آتے ہیں! اب رہ گئی تیسری نیک بخت جو میرے اوپر عاشق ہوئی تو بدقسمتی سے اس کا قصہ اس لائق نہیں کہ کسی اور کو یا بیوی کو سچ سچ سنایا جائے۔

چنانچہ مندرجہ بالا امور کو مدنظر رکھتے ہوئے میں خانم کے سوال سے کچھ چکرا سا گیا۔ کیا جواب دوں؟ یہ فکر دامن گیر ہوئی۔ سچ کہنا نہیں چاہتا تھا اور جھوٹ ناممکن تھا۔ لہٰذا میں نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے وقت گزاری کے لیے بجائے جواب دینے کے یہی سوال الٹا خانم سے کر دیا کہ پہلے تم بتاؤ کہ تم پر بھی کوئی عاشق ہوا ہے یا نہیں۔

یہ سوال سن کر خانم کو ہنسی اور غصہ بیک وقت آیا۔ اس نے برا ماننے کی کوشش کی، مگر میں نے آڑے ہاتھوں لیا، یہ کہہ کر تمہیں ضرور بتانا پڑے گا ورنہ میں بھی نہ بتاؤں گا۔ جب میں نے زور دیا تو اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ خدا نہ کرے میرے اوپر کوئی عاشق کیوں ہوتا، مگر حضرت میں نے جرح شروع کردی اور ایک درجن سوال نہ کیے ہوں گے کہ خانم کو کہنا پڑا کہ میری شادی سے پہلے تین جگہ سے پیغام اور آئے تھے۔ ان میں سے دو کا تو خیر کچھ نہیں کیونکہ ان کو انکار کردیا تو وہ مان گئے، لیکن ایک ان میں سے روپے پیسے والے بڈھے صاحب تھے جنہوں نے زیادہ کوشش کی، لیکن ان کو نہایت سختی سے انکار کیا گیا اور ان کی ہزاروں کی جائداد کے لالچ کو ہمارے خسر صاحب نے بڑی سختی سے ٹھکرا دیا۔ چنانچہ قصہ سن کر میں نے بڈھے ہی کو پکڑا اور جناب واقعہ بھی یہی ہے کہ اکثر بڈھوں کا قاعدہ ہے کہ اِدھر پڑوس میں لڑکی پیدا ہوئی نہیں کہ انہوں نے چھٹی میں اس کی شرکت کرکے اس کو دیکھا اور عاشق ہوگئے۔ پھر ٹھیک چودہ برس بعد آپ دیکھ لیجیے گا کہ بڑے میاں دھر دھر کے شادی کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب اس بڈھے والا قصہ ختم ہو گیا تو مجبوراً مجھے اپنا قصہ بے کم و کاست سنانا پڑا۔ آپ بھی سن لیجیے۔

(۳)

عرض ہے کہ بعض اوقات لوگوں کو گھر سے بھاگ جانا پڑتا ہے۔ تعلیم و الیم سب کو خیرباد کہہ کر یہ خاکسار بمبئی میں اسی ضروری کام کے لیے گیا ہوا تھا۔ گھر سے بھاگنے والے بمبئی کو نہ معلوم کیا سمجھتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ گھر سے بھاگنا سراسر حماقت ہے، چنانچہ یہ اسی زمانے کا ذکر ہے کہ اس خاکسار کو بھی پتہ چل رہا تھا۔ یعنی ہوٹل کی نوکری سے کان پکڑ کر جو نکالے گئے تھے اس کو پندرہ دن گزرنے کو آئے تھے اور روپیہ جو کچھ بھی تھا، وہ ختم ہونے والا ہی تھا۔ شام کو روزانہ کا میں نے یہ دستور بنا لیا تھا کہ چوپاٹی چلے گئے اور وہاں سے سیدھے مالابار ہل پر پہنچ گئے جس کو ہینگنگ گارڈن یعنی باغ معلق کہہ سکتے ہیں۔ آئیے میں پہلے اس باغ کی آپ کو سیر کراؤں۔

یہ باغ ایک مصنوعی اور کچھ غیر مصنوعی پہاڑی پر قائم ہے۔ یہ پہاڑی کیا ہے کہ سرسبزی اور شادابی کا گہوارہ ے۔ اس کے دامن میں خوبصورت باغیچہ لگا ہوا ہے اور یہ باغیچہ پہاڑی کی ڈھلوان سطح پر برابر چوٹی تک اس خوبصورتی سے چلا گیا ہے کہ انسانی کاریگری کی داد نہیں دی جا سکتی۔ اس طرح نینی تال، شملہ اور دوسرے ہل اسٹیشنوں پر چکر دار سڑکیں بنی ہوئی ہیں، جن پر ہوکر اوپر پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ کچھ اس نمونے کی پتلی پتلی سڑکیں یا روشیں پہاڑ کے اردگرد کمر پیٹی کی طرح کی کسی ہوئی ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ بنچیں رکھیں ہوئی ہیں۔ پھولوں کی بھرمار ہے اور ان پر فضا پتلی پتلی سبزہ اور پھولوں سے لدی پھندی سڑکوں پر ہوتے ہوئے آپ چوٹی پر پہاڑ کی پہنچ جائیے۔

ہر سڑک نیچے والی سڑک سے اونچی ہوتی گئی ہے۔ جگہ جگہ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں تاکہ اوپر والی سڑک پر آسانی سے پہنچ جائیں۔ شام کے وقت چوپاٹی سے کھڑے ہوکر مالابار ہل کی طرف نظر ڈالیے۔ نیچے سے لے کر چوٹی تک خوشنما پھولوں اور جھاڑیوں میں رنگین اور چمکیلے لباس والی عورتوں اور مردوں کی آمد و رفت یہ معلوم ہوتی ہے کہ گویا رنگا رنگ کے پھول کھلے ہیں یا متحرک پتلیاں سبزے پر ناچ رہی ہیں۔ سامنے سمندر لہریں مار رہا ہے، خوشگوار ہوا چل رہی ہے اور دیکھنے والا محسوس کرتا ہے کہ مالابار ہل پر ابدی نیکی اور خوشی کا دیوتا رہتا ہے جو اپنے پجاری کو مقناطیسی قوت کے ساتھ اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔

میں نے بھی چوپاٹی پہنچ کر یہی محسوس کیا اور مالابار ہل پر پہنچا۔ ہرقدم پر بہار تھی اور ایک دلچسپ میلہ تھا کہ نازک اندامان بمبئی، خوش خرامان بمبئی، حسینان بمبئی کے ساتھ ساتھ، پہلو بہ پہلو، اس دلچسپ پہاڑی پر خوش فعلیوں، شرارتوں اور زندگی کی دلچسپیوں کا خاموش مطالعہ کرتے ہوئے ہم بھی چڑھے چلے جا رہے تھے۔ ہر قوم کی اور ہر عمر کی عورتیں اور مرد، ایک سے ایک خوبصورت، ایک سے ایک شوخ اور ایک سے ایک پری زاد اور معصوم، اس تفریح کے وقت پہاڑ پر چلی جا رہی تھی اور ہم بھی تھے پانچوں سواروں میں۔ خاموش طبیعت اندر ہی اندر سے باوجود اس تمام تفریح کے کچھ مردہ سی تھی۔ کوئی جان پہچان نہیں۔ کوئی یار دوست بات کرنے والا نہیں۔

قصہ مختصر خاموشی کے ساتھ میں پہاڑ پر پہنچا۔ پہاڑ کی چوٹی ویسی نہیں ہے جیسی ہمالیہ کی چوٹی پر پہنچئے تو ایک لق و دق، بلکہ سبزے کا میدان ہے۔ ایک باغ لگا ہوا ہے۔ پھول کھلے ہوئے ہیں۔ روشوں پر لوگ ٹہل رہے ہیں۔ سبزے پر خوش فعلیاں ہو رہی ہیں۔ بس معلوم ہو رہا ہے کہ قا آنی نے اسی موقع کے لئے کہا تھا، یکے بر لالہ پا کو بد کہ ہے، ہے رنگ می دارد۔ جگہ جگہ یورپین، پارسی، مرہٹہ، گجراتی وغیرہ وغیرہ اقوام کی لڑکیاں اور عورتیں کچھ کھیل رہی تھیں، کچھ بچوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھیں۔ یہاں سرکار کی طرف سے جھولے پڑے ہوئے ہیں۔ جگہ جگہ دو دو چار چار کی ٹولیاں سبزے پر خوش فعلیوں میں مشغول تھیں۔ ہمارے جیسے شاید دو ایک احمق اور بھی تھے جو علیحدہ ایک بنچ یا سبزے پر بیٹھے ہوئے خوبصورت لڑکیوں کو بڑے غور سے دیکھے چلے جا رہے تھے۔ ادھر قریب سے کوئی خوبصورت لڑکی گزری نہیں کہ انہوں نے کوشش کی کہ کسی طرح جاذب نظر بن جائیں۔

(۴)

ادھر ادھر گھوم پھر کر میں اب تنہائی کے مقام پر پہنچا اورایک بنچ پر سر جھکا کر اس طرح غافل ہوکر بیٹھ گیا کہ تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند جو کیں تو یہ بھی خیال نہ رہا کہ کہاں ہوں۔ میں اسی طرح بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ آہٹ سی ہوئی۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو پارسی لڑکیاں آپس میں باتیں کرتی میری ہی طرف چلی آرہی تھیں۔ میری بنچ کے قریب آکر ایک نے مجھ سے کہا، ’’اگر کوئی مضائقہ نہ ہو تو کیا ہم بھی اس بنچ پر بیٹھ سکتے ہیں۔‘‘

میں چونک سا پڑا اور میں نے کہا، ’’ضرور۔ ضرور۔ بڑے شوق سے بلکہ میں خود ہی اٹھ جاتا ہوں اور آپ ضرور بیٹھیے۔‘‘ یہ کہتا ہوا میں اٹھا۔ میرا اٹھنا تھا کہ ایک ’’نہیں نہیں‘‘ کہتی ہوئی بڑے اخلاق سے مجھے روکنے کو بڑھی اور بولی، ’’آپ بیٹھیے ہم خود چلے جائیں گے۔‘‘ فوراً ہی دوسری بولی، ’’ہم نے آپ کو تکلیف دی۔ آپ بیٹھیے۔‘‘ اس پر میں نے اور بھی اصرار کیا۔ نتیجہ یہ کہ وہ مضمون ہوگیا کہ ’’واللہ آپ واللہ آپ۔‘‘ نتیجہ یہ کہ ان میں سے جو ذرا بڑی عمر والی یعنی اٹھارہ انیس برس کی تھی، اس نے بڑے اخلاق سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی، ’’اچھا نہ آپ جائیے نہ ہم جائیں۔ آپ بھی بیٹھیے اور ہم بھی بیٹھتے ہیں۔‘‘

میں نے اس پسندیدہ تجویز پر دل میں خوش ہوتے ہوئے کہا، ’’مگر شاید آپ دونوں کے تخلیے میں مخل ہوں گا۔‘‘ اس پر چھوٹی عمر والی بولی، ’’ہرگز نہیں بلکہ آپ کی موجودگی ہمارے لیے باعث دلچسپی ہوگی۔ کیا آپ ہماری بات چیت ناپسند کریں گے؟‘‘ میں نے کہا، ’’ہرگز نہیں۔‘‘

قصہ مختصر وہ بھی بیٹھ گئیں اور میں بھی بیٹھ گیا اور اس کے بعد ہی انہوں نے بڑے اخلاق اور بڑے تپاک سے مجھ سے تعارف حاصل کیا۔ مجھے یاد نہیں میں نے ان سے کیا جھوٹ سچ ملایا، جس کا لب لباب یہ تھا کہ محض بمبئی میں سیر و تفریح کے لیے آیا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا تعارف خود مجھ سے کرایا اور مجھے معلوم ہوا کہ بڑی عمر والی لڑکی بیوہ ہے اور چھوٹی لڑکی اس کی دوست ہے جو کنواری ہے۔ بڑی نے اپنا نام مسز لمجی بتایا اور چھوٹی کا نام مس رستم جی تھا۔ دونوں بہت خوش اخلاق، خوش پوشاک اور خوبصورت تھیں۔ مگر لمجی کو دیکھ کر اتنا ضرور کہنا پڑتا تھا کہ حضرت ڈارون کا مسئلہ ارتقاء تو ضرور صحیح ہے مگر ایک بات ہے، وہ یہ کہ اگر حضرت انسان بندر کی اولاد کہے جا سکتے ہیں تو کچھ گھوڑے کی اولاد بھی ثابت کیے جا سکتے ہیں۔ بہت دیر تک یہ صحبت قائم رہی۔ آخرش میں خود ہی ان دونوں سے رخصت ہو کر دوسری طرف چل دیا۔

(۵)

شام ہو رہی تھی اور لوگ پہاڑ سے اتر رہے تھے۔ میری طبیعت حسب معمول کند تھی چنانچہ بھیڑ بھڑکے کو چھوڑ کر میں قصداً اس طرف چلا جدھر کوئی بھی نہیں اتر رہا تھا اور روشوں کی تین منزلیں اتر کر میں چوتھی پر پہنچا اور پھولوں اور جھاڑیوں کے گنجان راستے طے کرتا ہوا بالکل ہی تنہائی کے راستہ پر پہنچا اور وہاں سے میں پانچویں روش پر اترا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مسز لمجی ایک گملے کے پاس ایک پیر جھکائے اور دوسرا پیر ایک جھاڑی میں پھنسائے اس طرح کھڑی ہی کہ منڈیر ہاتھ سے پکڑے ہوئےاور چہرے سے تکلیف ظاہر ہو رہی ہے۔ میں ایک دم سے اسے دیکھ کر جھجک گیا اور وہ بولی کہ خدا کے واسطے میری مدد کیجیے۔

میں فوراً اس کے پاس پہنچا تو اس نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا اور مجھے اس وقت یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ نہ تو اس کا کسی چیز میں کپڑا اٹکا ہے اور نہ پیر اٹکا ہے، لیکن فوراً ہی اس نے لنگڑاتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی اور گویا درد سے بیتاب ہوکر کہنے لگی، ’’میرا پیر ٹوٹ گیا۔‘‘ میں نے استفسار کرتے ہوئے تسلی دینا چاہی تو اس نے بالکل ہی بے تکلف اور آزادی سے اپنا داہنا ہاتھ میرے گلے میں اچھی طرح حمائل کر کے اور مجھ پر لد کر اپنا پورا بوجھ ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’براہ کرم جس طرح بھی بن پڑے، مجھے نیچے تک پہنچا دیجیے۔‘‘

آپ خود خیال فرمائیں کہ میں کس طرح انکار کرتا۔ جب کہ یہ کہنے کے ساتھ ہی اس نےاسی شان سے کہ مجھ سے چمٹی ہوئی ہے اور گلے میں ہاتھ حمائل ہے، لنگڑا کرمیرے ساتھ چلنا شروع کر بھی دیا اور چار چھ قدم چلنے کے بعدہی مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ نسوانی بوجھ اس طرح گھسیٹنا میرے بس کا روگ نہیں، لیکن اس عجیب و غریب تجربہ میں آپ سے کیا عرض کروں کہ میرے دل میں کیسے لڈو پھوٹ رہے تھے۔

قصہ طویل ہے۔ مختصر اس کو یوں سمجھیے کہ تھوڑی ہی دیر بعد ہم دونوں بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میری معلومات میں ایک نیا اضافہ ہو چکا تھا یعنی یہ کہ مسز لمجی مجھ پر بری طرح عاشق ہو چکی تھیں۔ نہ صرف انہوں نے مجھ کو مطلع کر دیا بلکہ خود پتہ چل گیا تھا کہ غریب میرے عشق میں بری طرح عاشق ہو چکی تھیں۔ اب اس کا علاج صرف یہی ہے کہ اس کی خواہش کے مطابق اس کے گھر چلوں یعنی اس کے مرحوم شوہر کے گھر جس کی اب وہ سولہ آنے خود مالک و مختار ہے اور اب اس مال و دولت میں اپنا شریک مجھے بنانا چاہتی ہے۔

اب ایسے موقع پر یہ سوال نہیں ہے کہ آپ ہوتے تو کیا کرتے یا کوئی اور ہوتا تو کیا کرتا بلکہ یہاں تعلق اس سے ہے کہ میں نے کیا کیا۔ میں نے یہ کیا کہ اسے ساتھ لے کر نیچے اترا۔ چوپاٹی پر عجیب بہار تھی۔ ہمیں اس سے کیا مطلب تھا۔ ہم نے تو جلدی سے ایک موٹر کرائے پر لیا اور اس کے گھر کی طرف چلے۔ ایک عالیشان بلڈنگ کے پاس اس نے موٹر کو رکوایا۔ ہم دونوں اترے۔ اس کے پیر کا درد قریب قریب غائب تھا۔ تیسری منزل پر پہنچے۔ مگر اس نے ایک کمرے کے دروازے کا تالا ہاتھ میں لے کر کہا، ’’اب کیا کروں۔ نوکر تالا دے کر چل دیا۔‘‘ چارو ناچار ہم دونوں کو لوٹنا پڑا کیونکہ اس نے بتلایا کہ نوکر دو گھنٹے بعد آئے گا۔ میں نے پوچھا کہ آپ اب کہاں چلیں گی۔ تو اس نے کہا کچھ چائے اور آئیس کریم کھا کر سینما چلیے۔

مجھے بھلا کیا انکار ہو سکتا تھا۔ نیچے آکر میں نے پھر موٹر کرائے پر لیا اور سیدھے اس کی فرمائش کے مطابق اس کی ایک ملنے والی کے یہاں چلے۔ وہاں سے تین لڑکیاں اور ہمارے ساتھ ہولیں اور سب مل کر ایک ہوٹل میں پہنچے۔ کچھ کھا پی کر سیدھے سینما دیکھنےکے بعد صبح کا وعدہ کرکے ہم سب رخصت ہوئے۔ اب میں جائے قیام پر پہنچ کر اپنی جیب کا جائزہ لیتا ہوں تو پیر تلے سے زمین نکل گئی۔ مطلب یہ کہ بمشکل دو ڈھائی روپے رہ گئے۔

(۶)

دوسرے دن پہلا کام یہ کیا گیا کہ ساٹھ روپے کے قمیص کے بٹن پچاس روپے میں بیچے نہیں لیکن پینتیس روپے میں رہن رکھ دیے۔ یہ کیوں؟ محض اس لیے کہ عشق سےسابقہ ذرا اچھی طرح نباہنا چاہیے۔ بدقسمتی سے یا خوش قسمتی سے یہ سمجھے ہوئے تھے کہ بمبئی کے سیٹھ کی بیوہ سے شادی کریں گے اور سیٹھ کی دولت پر قبضہ جمائیں گے۔ چنانچہ ۳۵ روپے جیب میں ڈال کر چلنے کی تیاری کی۔ آئینے میں دیکھ دیکھ کر وہ سنگھار کیے کہ آپ سے ہم کیا بتائیں۔ بڑی دیر تک آئینے میں اپنی صورت دیکھتے رہے۔ اِدھر سے دیکھا۔ اُدھر سے دیکھا اور ہر طرح اپنے کو قبول صورت اور صاحب جمال پایا۔

دل نے فوراً کہا کہ بھیا مرزا در اصل تو بہت خوبصورت ہے اور یہ شوخ اور خوبصورت چھوکریاں جن کے دماغ مغربی تعلیم نے خراب کر دیے ہیں، تجھ کو چمرخ، پھٹیچر، پنکی، تنکا افیونی اور سنیکیا پہلوان وغیرہ وغیرہ کہتی رہتی ہیں تو اصل میں جھک مارتی ہیں۔ اب تو تمہارے اوپر عاشق ہونے کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اگرتم کچھ دنوں اور بمبئی رہ گئے تو تعجب نہیں کہ حسینان بمبئی تمہیں تبرک کر کے بانٹ لیں۔ ہم نے کہا، ’’اے بھیا دل! اللہ تمہارا بھلا کرے۔ ہم تو کچھ کہتے سنتے نہیں ہیں، مگر ہاں اتنا ہم بھی جانتے ہیں کہ بمبئی میں پرکھ والیاں کچھ ہیں ورنہ اپنی طرف کا تو حال یہ ہے کہ اچھوتوں کو چھوڑ کر ہمیشہ عاشق ہونے والیاں امیروں ہی کو ڈھونڈتی ہیں۔‘‘

مسز لمجی کے گھر پر جو میں پہنچا تو اس کو سڑک کے کنارے اپنا منتظر پایا۔ میں اترنے لگا تو وہ مسکراتی ہوئی خود موٹر پر چڑھ آئی اور شوفر سے کہا کہ رانی باغ چلو۔ شوفر نے موٹر کو پوری تیزی کے ساتھ چھوڑ دیا اور ہم دونوں باتوں میں مشغول ہوگئے۔ وہ وہ تجویزیں کیں اور وہ وہ خوشگوار خواب میں نے دیکھے کہ بیان نہیں کر سکتا۔ مسز لمجی کے عشق حقیقی کی قدم قدم پر تصدیق ہوتی تھی۔

رانی باغ گئے اور سیر کی۔ وہاں سے واپس ہوئے تو وہ اپنی ملنے والیوں کے یہاں لے گئی اور شام تک وہی پروگرام رہا جو گزشتہ دن رہا تھا اور اس پروگرام میں بائیس روپے ختم ہوگئے اور اب مجھے فکر ہوئی کہ روپے کا کچھ انتظام کرنا چاہیے۔ بمبئی میں میرے یار غار اور ہمدرد صرف ایک تھے۔ بڑے یار باش۔ ضرورت سے زیادہ زندہ دل اور بڑے سچے ہمدرد۔ یہ حضرت اودھ کے رہنے والے ایک نوجوان سید تھے اور ریلوے میں نوکر تھے۔ چنانچہ میں اسٹیشن پر پہنچا تو ان کو ریسٹ روم میں یار دوستوں کے ساتھ غپ شپ کرتے پایا۔ فوراً ان کو ساتھ لے کر پشت والے کمرے میں تنہائی میں لے جا کر اپنی رام کہانی شروع کی۔ بہت تھوڑی سی سنا پایا تھا کہ وہ ہنس کر بولے کہ ’’پھر آگے وہ لنگڑاتے ہوئے بھی تمہیں ملی یا نہیں اور اس کو تم نے چلنے میں مدد دی یا نہیں۔‘‘

ظاہر ہے کہ مجھے کتنا تعجب ہوا ہوگا کہ میں نے ان سے کہا بھی نہیں اور انہیں معلوم ہو گیا۔ چنانچہ میں یہ سمجھا کہ شاید انہوں نے اس کے ساتھ مجھے دیکھ لیا ہے، چنانچہ ہنس کر میں نے کہا، ’’تم کو کیسے معلوم ہوا۔‘‘ اس کے جواب میں انہوں نے ایک زبردست قہقہہ لگایا اور ہنسی سے بیتاب ہو کر کرسی سے باوجود میرے پکڑنے اور روکنے کے اٹھ کھڑے ہوئےاور بڑے کمرے میں جہاں لوگ بیٹھے تھے، پہنچ کر چلا کر کہا، ’’ارے میاں فاروق کچھ نئی سنو۔‘‘ فاروق ہنس کر بولے، ’’کیوں بھئی کیا معاملہ ہے۔‘‘ انہوں نےمیری پیٹھ پر زور سے ہاتھ مار کر ایک قہقہہ لگا کر کہا، ’’ان پر بھی مالا بار ہل والی نے الو کی لکڑی پھیر دی۔‘‘

ان کا یہ کہنا تھا کہ کمرے کا کمرہ مارے ہنسی کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ بھڑوں کی طرح سب مجھ سے چمٹ پڑے۔ کوئی پوچھتا تھا کتنے روپے کھو بیٹھے، کوئی کہتا تھا ان کا وہ حال ہوا کہ مفلسی میں آٹا گیلا۔ کوئی کہنے لگا کہ میرے یار تم نے اپنی صورت تو دیکھی ہوتی۔ آئینہ میں کہ کوئی اس پر عاشق ہو ہی نہیں سکتا۔ کوئی اور بولا کہ ان کے کان میں شیطان یہ کہہ گیا ہے کہ بھیا تجھ سے زیادہ حسین کوئی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ پھر ساتھ ہی حاضرین میں سے جو خود میری طرح تختہ مشق بن چکے تھے، وہ بھی طرح طرح کی مسخری باتیں کرنے لگے۔ نتیجہ یہ کہ جب اطمینان سے بیٹھ کر مجھ سے احوال مفصل پوچھا گیا تو میں نے مجبوراً اپنی مصیبت گھٹانے کے لیے نقصان کی میزان صرف سات روپے بتلائی۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ اس چالاک عورت کا پیشہ یہی ہے کہ کسی احمق پر روز عاشق ہونا اور اپنا الو سیدھا کرنا۔

یہ وہ داستان ہے کہ ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر بھی عمر میں ایک لڑکی عاشق ہوئی۔ اب یہ اور بات کہ خود ہم نے ہی سلسلہ عشق کو توڑ دیا اور پھر جتنے دن بمبئی میں رہے کبھی اس طرف کا رخ نہ کیا۔ اب دیکھیں اور کوئی بھی ہے جو اس مضمون کے عنوان نما سوال کا جواب دے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.