آؤ بیٹھو ہنسو مزا ہو
آؤ بیٹھو ہنسو مزا ہو
کچھ تو فرماؤ کیوں خفا ہو
لو شمع کی بجھنے کو ہے اے گل
محفل میں نہ کوئی دل جلا ہو
دل کا دکھنا اسی سے کہیے
جو درد کی قدر جانتا ہو
شیشہ تلووں میں چبھ نہ جائے
ٹھکراتے ہو دل کو کج کلاہو
بہکی بہکی ہوں اس کی باتیں
ساقی ساقی پکارتا ہو
اجلی اجلی سی چاندنی میں
گورا گورا بدن کھلا ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |