آؤ کچھ شغل کریں بیٹھے ہیں عریاں اتنے
آؤ کچھ شغل کریں بیٹھے ہیں عریاں اتنے
پھاڑیں سینہ ہی گو ہاتھ آئے گریباں اتنے
آہ کوئی جو اسے آن کے سمجھاتا ہو
دیکھتے ہیں کھڑے ہندو و مسلماں اتنے
سچ کہہ اے باد صبا ہے کسی گل پر یہ بہار
تو نے دیکھے ہیں زمانے کے گلستاں اتنے
شور محشر کا رہے کیوں نہ ترے کوچہ میں
جس جگہ ہوویں اکٹھے دل نالاں اتنے
ہم سے واماندوں کو اللہ نباہے تو نبھیں
تن سو یہ خستہ و درپیش بیاباں اتنے
دم بھی کچھ چیز ہے جب چوک گیا بات تمام
کون سی زیست پہ تو کرتا ہے ساماں اتنے
تجھ کو قائمؔ رکھے اللہ بہت سا اے امیر
مجتمع سائے میں ہیں جس کے سخنداں اتنے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |