آئینۂ دل میں کچھ اگر ہے

آئینۂ دل میں کچھ اگر ہے
by جوشش عظیم آبادی

آئینۂ دل میں کچھ اگر ہے
تیرا ہی جمال جلوہ گر ہے

ہم مر گئے تیری جستجو میں
بے رحم کہاں ہے تو کدھر ہے

رہبر نہیں چاہتی رہ عشق
واں شوق ہی اپنا راہ بر ہے

کیوں مارے ہے لاف حج اکبر
اپنے کئے پر بھی کچھ نظر ہے

کعبے سی جگہ پہنچ پھر آیا
تو حاجی نہیں ہے گیدی خر ہے

اس در ہی کی آرزو میں ؔجوشش
یہ مشت غبار در بہ در ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse