آئیں گے گر انہیں غیرت ہوگی
آئیں گے گر انہیں غیرت ہوگی
وہ نہ آئے تو قیامت ہوگی
حشر میں کون سنے گا فریاد
سد رہ حد سماعت ہوگی
ننگ نظارہ ہے ہم چشمۂ عام
ہم نہ دیکھیں گے جو رویت ہوگی
یک طرف ہو کے رہیں گے یک رنگ
ہم کو اعراف سے نفرت ہوگی
شکوہ ہے دین وفا میں احداث
مجھ سے کاہے کو یہ بدعت ہوگی
ہیں قیامت میں تامل کیا کیا
وصل کی کون سی ساعت ہوگی
ریگ ہوں چاہیے دریائے شراب
میکدے پر نہ قناعت ہوگی
ہے شب وصل دو عالم گیسو
وہ جبیں صبح شہادت ہوگی
بحر رحمت ہے دو عالم کو محیط
میرے مشرب کی سی وسعت ہوگی
مے سے آلودہ ہوا دامن حسن
متہم خون کی تہمت ہوگی
کھینچتا تھا کوئی ان کا دامن
خاک میں وصل کی حسرت ہوگی
راس ہے چارۂ بالمثل مجھے
قید سے اور بھی وحشت ہوگی
شعلہ رو پڑھتے ہیں کلمہ تیرا
شمع انگشت شہادت ہوگی
غیر کی آگ میں جلنے نہ دیا
حسن کی سی کسے غیرت ہوگی
واشدہ غنچۂ خاطر مت مانگ
منتشر بوئے محبت ہوگی
زہر لگتی ہے انہیں میری حیات
کیوں کہ منظور شہادت ہوگی
کھا گئے نرگس شہلا کا فریب
کہ ان آنکھوں میں مروت ہوگی
تیری زلفوں نے چڑھائے چلے
دل کی اس کوچہ میں تربت ہوگی
بن گئے سات جہنم تہ خاک
کس کے پہلو میں یہ حدت ہوگی
کہیں سر پھوڑ کے مر رہیے بیاںؔ
اک جہاں سے تو فراغت ہوگی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |