آئیے جلوۂ دیدار کے دکھلانے کو

آئیے جلوۂ دیدار کے دکھلانے کو
by وحید الہ آبادی

آئیے جلوۂ دیدار کے دکھلانے کو
پھونک دے برق تجلی مرے کاشانے کو

دیکھیے کون سی جا یار کا ملتا ہے پتہ
کوئی کعبے کو چلا ہے کوئی بت خانے کو

تیری فرقت میں تصور ہے یہ بے دردی کا
خواب ہم جانتے ہیں نیند کے آ جانے کو

بعد میرے جو ہوا دشت میں مجنوں کا گزر
رو دیا دیکھ کے خالی مرے ویرانے کو

کام آ جاتی ہے ہم بزمی بھی روشن دل کی
شمع ہم رنگ بنا لیتی ہے پروانے کو

آج پھر شہر کے کوچے نظر آتے ہیں اداس
کس طرف لے گئی وحشت ترے دیوانے کو

اے جنوں تنگ ہوئی وسعت صحرا تجھ سے
اب کہاں جائے طبیعت کوئی بہلانے کو

گل پہ بلبل تھا کہیں شمع پہ پروانہ تھا
ہم نے ہر رنگ میں دیکھا ترے پروانے کو

وا شد دل نہ ہوئی غنچۂ خاطر نہ کھلا
کون سے باغ میں آئے تھے ہوا کھانے کو

میں نے جب وادئ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse