آئے بھی تو وہ منہ کو چھپائے مرے آگے
آئے بھی تو وہ منہ کو چھپائے مرے آگے
اس طرح سے آئے کہ نہ آئے مرے آگے
بجھتے ہوئے دیکھوں گا نہ میں دل کی لگی کو
کوئی نہ کبھی شمع بجھائے مرے آگے
تیور یہی کہتے تھے کہ یہ نام ہے میرا
لکھ کر کئی حرف اس نے مٹائے مرے آگے
بچھڑے ہوئے معشوق ملیں سب کو الٰہی
تنہا کوئی جنت میں نہ جائے مرے آگے
کچھ داغؔ کا مذکور جو آیا تو وہ بولے
آئے تھے برا حال بنائے مرے آگے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |