آتش تب نے کی ہے تاب شروع
آتش تب نے کی ہے تاب شروع
تو بھی کر دیدۂ پر آب شروع
کیوں نہ ابتر ہو آنسوؤں سے چشم
کی ہے لڑکوں نے یہ کتاب شروع
شب میں چاہا کروں کچھ اس سے سوال
بن سنے ہی کیا جواب شروع
سرفۂ خشک بھی ہے اک حیلہ
کرنی زاہد کو تھی شراب شروع
نام سنتے ہی اس کا بس قائمؔ
پھر کیا تو نے اضطراب شروع
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |