آتش پارے/ تماشا

166919آتش پارے — تماشا1936سعادت حسن منٹو

دو تین روز سے طیارے سیاہ عقابوں کی طرح پر پھیلائے خاموش فضا میں منڈلا رہے تھے جیسے وہ کسی شکار کی جستجو میں ہوں۔ سرخ آندھیاں وقتاً فوقتاً کسی آنیوالے خونی حادثہ کا پیغام لا رہی تھیں۔ سنسان بازاروں میں مسلح پولیس کی گشت ایک عجیب ہولناک سماں پیش کر رہی تھی۔ وہ بازار جو صبح سے کچھ عرصہ پہلے لوگوں کے ہجوم سے پر ہوا کرتے تھے اب کسی نہ معلوم خوف کی وجہ سے سُونے پڑے تھے۔۔۔۔۔۔۔شہر کی فضا پر ایک پر اسرار خاموشی مسلط تھی۔ بھیانک خوف راج کر رہا تھا۔

خالد گھر کی خاموش و پر سکون فضا سے سہما ہوا اپنے والد کے قریب بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔

"ابا، آپ مجھے سکول کیوں نہیں جانے دیتے؟"

"بیٹا، آج سکول میں چھٹی ہے۔"

"ماسٹر صاحب نے تو ہمیں بتایا ہی نہیں۔ وہ تو کل کہہ رہے تھے کہ جو لڑکا آج سکول کا کام ختم کر کے اپنی کاپی نہ دکھائے گا، اسے سخت سزا دی جائیگی۔"

"وہ اطلاع دینی بھول گئے ہونگے۔"

"آپ کے دفتر میں بھی چھٹی ہے۔"

"ہاں ہمارا دفتر بھی آج بند ہے۔"

"چلو اچھا ہوا۔۔۔۔۔۔۔آج میں آپ سے کوئی اچھی سی کہانی سنوں گا۔"

یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ تین چار طیارے چیختے ہوئے انکے سر پر سے گزر گئے۔ خالد انکو دیکھ کر بہت خوفزدہ ہوا، وہ تین چار روز سے ان طیاروں کی پرواز کو بغور دیکھ رہا تھا مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا تھا۔ وہ حیران تھا کہ یہ جہاز سارا دن دھوپ میں کیوں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ وہ انکی روزانہ نقل و حرکت سے تنگ آ کر بولا۔

"ابا، مجھے ان جہازوں سے سخت خوف معلوم ہو رہا ہے۔ آپ انکے چلانے والوں سے کہدیں کہ وہ ہمارے گھر پر سے نہ گزرا کریں۔"

"خوف۔۔۔۔۔کہیں پاگل تو نہیں ہو گئے خالد۔"

"ابا، یہ جہاز بہت خوفناک ہیں۔ آپ نہیں جانتے یہ کسی نہ کسی روز ہمارے گھر پر گولہ پھینک دیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔کل صبح ماما امی جان سے کہہ رہی تھی کہ ان جہاز والوں کے پاس بہت سے گولے ہیں۔ اگر انہوں نے اس قسم کی کوئی شرارت کی تو یاد رکھیں میرے پاس بھی ایک بندوق ہے۔۔۔۔۔۔۔وہی جو آپ نے پچھلی عید پر مجھے دی تھی۔"

خالد کا باپ اپنے لڑکے کی غیر معمولی جسارت پر ہنسا۔ "ماما تو پاگل ہے، میں اس سے دریافت کرونگا کہ وہ گھر میں ایسی باتیں کیوں کیا کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔اطمینان رکھو، وہ ایسی بات ہر گز نہیں کرینگے۔"

اپنے والد سے رخصت ہو کر خالد اپنے کمرے میں چلا گیا اور ہوائی بندوق نکال کر نشانہ لگانے کی مشق کرنے لگا تا کہ اس روز جب ہوائی جہاز والے گولے پھینکیں تو اسکا نشانہ خطا نہ جائے اور وہ پوری طرح انتقام لے سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش انتقام کا یہی ننھا جذبہ ہر شخص میں تقسیم ہو جائے۔

اسی عرصہ میں جبکہ ایک ننھا سا بچہ اپنے انتقام لینے کی فکر میں ڈوبا ہوا طرح طرح کے منصوبے باندھ رہا تھا، گھر کے دوسرے حصے میں خالد کا باپ اپنی بیوی کے پاس بیٹھا ہوا ماما کو ہدایت کر رہا تھا کہ وہ آئندہ گھر میں اس قسم کی کوئی بات نہ کرے جس سے خالد کو دہشت ہو۔

ماما اور بیوی کو اسی قسم کی مزید ہدایات دیکر وہ ابھی بڑے دروازے سے باہر جا رہا تھا کہ خادم ایک دہشتناک خبر لایا کہ شہر کے لوگ بادشاہ کے منع کرنے پر بھی شام کے قریب ایک عام جلسہ کرنے والے ہیں اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ کوئی نہ کوئی واقع ضرور پیش آ کر رہے گا۔

خالد کا باپ یہ خبر سن کر بہت خوفزدہ ہوا، اب اسے یقین ہو گیا کہ فضا کا غیر معمولی سکون، طیاروں کی پرواز، بازاروں میں مسلح پولیس کی گشت، لوگوں کے چہروں پر اداسی کا عالم اور خوفناک آندھیوں کی آمد کسی خوفناک حادثہ کی پیش خیمہ تھے۔

وہ حادثہ کس نوعیت کا ہو گا؟۔۔۔۔۔۔۔۔یہ خالد کے باپ کی طرح کسی کو بھی معلوم نہ تھا مگر پھر بھی سارا شہر کسی نامعلوم خوف میں لپٹا ہوا تھا۔

باہر جانے کے خیال کو ملتوی کر کے خالد کا باپ ابھی کپڑے تبدیل کرنے بھی نہ پایا تھا کہ طیاروں کا شور بلند ہوا وہ سہم گیا۔ اسے ایسا معلوم ہوا جیسے سینکڑوں انسان ہم آہنگ آواز میں درد کی شدت سے کراہ رہے ہیں۔

خالد طیاروں کا شور و غل سن کر اپنی ہوائی بندوق سنبھالتا ہوا کمرے سے باہر دوڑا آیا اور انہیں غور سے دیکھنے لگا تا کہ وہ جس وقت گولہ پھینکنے لگیں تو وہ اپنی بندوق کی مدد سے انہیں نیچے گرا دے۔ اس وقت چھ سال کے بچے کے چہرے پر آہنی ارادہ و استقلال کے آثار نمایاں تھے جو کم حقیقت بندوق کا کھلونا ہاتھ میں تھامے ایک جری سپاہی کو شرمندہ کر رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھ کہ وہ آج اس چیز کو جو اسے عرصے سے خوفزدہ کر رہی تھی، مٹانے پر تلا ہوا ہے۔

خالد کے دیکھتے دیکھتے ایک جہاز سے کچھ چیز گری جو کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے مشابہ تھی۔ گرتے ہی یہ ٹکڑے ہوا میں پتنگوں کی طرح اڑنے لگے، ان میں سے چند خالد کے مکان کی بالائی چھت پر بھی گرے۔

خالد بھاگا ہوا اوپر گیا اور وہ کاغذ اٹھا لایا۔

"ابا جی، ماما سچ مچ جھوٹ بک رہی تھی۔ جہاز والوں نے تو گولوں کی بجائے یہ کاغذ پھینکے ہیں۔"

خالد کے باپ نے وہ کاغذ لیکر پڑھنا شروع کیا تو رنگ زرد ہو گیا، ہونیوالے حادثے کی تصویر اب اسے عیاں طور پر نظر آنے لگی۔ اس اشتہار میں صاف لکھا تھا کہ بادشاہ کسی جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر اسکی مرضی کے خلاف کوئی جلسہ کیا گیا تو نتائج کی ذمہ دار خود رعایا ہو گی۔

اپنے والد کو اشتہار پڑھنے کے بعد اس قدر حیران و پریشان دیکھ کر خالد نے گھبراتے ہوئے کہا۔ "اس کاغذ میں یہ تو نہیں لکھا کہ وہ ہمارے گھر پر گولے پھینکیں گے؟"

"خالد اس وقت تم جاؤ، جاؤ اپنی بندوق کے ساتھ کھیلو۔"

"مگر اس پر لکھا کیا ہے۔"

"لکھا ہے کہ آج شام کو ایک تماشا ہو گا۔" خالد کے باپ نے گفتگو کو مزید طول دینے کے خوف سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔

"تماشا ہو گا، پھر تو ہم بھی چلیں گے نا۔"

"کیا کہا۔"

"کیا اس تماشے میں آپ مجھے نہ لے چلیں گے؟"

"لے چلیں گے، اب جاؤ جا کر کھیلو۔"

"کہاں کھیلوں؟ بازار میں آپ جانے نہیں دیتے، ماما مجھ سے کھیلتی نہیں، میرا ہم جماعت طفیل بھی تو آج کل یہاں نہیں آتا، اب میں کھیلوں تو کس سے کھیلوں؟۔۔۔۔۔۔۔شام کے وقت تماشا دیکھنے تو ضرور چلیں گے نا؟"

کسی جواب کا انتظار کئے بغیر خالد کمرے سے باہر چلا گیا اور مختلف کمروں میں آوارہ پھرتا ہوا اپنے والد کی نشست گاہ میں پہنچا، جس کی کھڑکیاں بازار کی طرف کھلتی تھیں۔ کھڑکی کے قریب بیٹھ کر وہ بازار کی طرف جھانکنے لگا۔

کیا دیکھتا ہے کہ بازار میں دکانیں تو بند ہیں مگر آمد و رفت جاری ہے۔ لوگ جلسے میں شریک ہونے کے لئے جا رہے تھے۔ وہ سخت حیران تھا کہ دو تین روز سے دکانیں کیوں بند رہتی ہیں، اس مسئلہ کے حل کے لئے اس نے اپنے ننھے دماغ پر بہتیرا زور دیا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔

بہت غور و فکر کرنے کے بعد اس نے یہ سوچا کہ لوگوں نے اس تماشا دیکھنے کی خاطر، جس کے اشتہار جہاز بانٹ رہے تھے، دکانیں بند کر رکھی ہیں۔ اب اس نے خیال کیا کہ وہ کوئی نہایت ہی دلچسپ تماشا ہو گا جس کے لیئے تمام بازار بند ہیں۔ اس خیال نے خالد کو سخت بے چین کر دیا اور وہ اس وقت کا نہایت بیقراری سے انتظار کرنے لگا جب اس کا ابا اسے تماشا دکھلانے کو لے چلے۔

وقت گزرتا گیا، وہ خونی گھڑی قریب تر آتی گئی۔

سہ پہر کا وقت تھا، خالد اسکا باپ اور والدہ صحن میں خاموش بیٹھے ایک دوسرے کی طرف خاموش نگاہوں سے تک رہے تھے، ہوا سسکیاں بھرتی ہوئی چل رہی تھی۔

تڑ۔ تڑ۔ تڑ۔ تڑ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ آواز سنتے ہی خالد کے باپ کے چہرے کا رنگ کاغذ کی طرح سفید ہو گیا، زبان سے بمشکل اس قدر کہہ سکا۔ "۔۔۔۔۔۔گولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

خالد کی ماں فرطِ خوف سے ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکال سکی، گولی کا نام سنتے ہی اسے ایسا معلوم ہوا جیسے خود اسکی چھاتی سے گولی اتر رہی ہے۔

خالد اس آواز کو سنتے ہی اپنے والد کی انگلی پکڑ کر کہنے لگا۔ "ابا جی چلیں، تماشا تو شروع ہو گیا ہے۔"

"کونسا تماشا؟" خالد کے باپ نے اپنے خوف کو چھپاتے ہوئے کہا۔

"وہی تماشا جس کے اشتہار آج صبح بانٹ رہے تھے، کھیل شروع ہو گیا ہے، تبھی تو اتنے پٹاخوں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔"

"ابھی بہت وقت باقی ہے، تم شور مت کرو، خدا کے لیئے اب جاؤ، ماما کے پاس جا کر کھیلو۔"

خالد یہ سنتے ہی باورچی خانے کی طرف گیا مگر وہاں ماما کو نہ پا کر اپنے والد کی نشست گاہ میں چلا گیا اور کھڑکی سے بازار کی طرف دیکھنے لگا۔

بازار آمد و رفت بند ہو جانے کی وجہ سے سائیں سائیں کر رہا تھا، دور فاصلے سے کتوں کی دردناک چیخیں سنائی دے رہی تھیں، چند لمحات کے بعد ان چیخوں میں انسان کی دردناک آواز بھی شامل ہو گئی۔

خالد کسی کو کراہتے سن کر بہت حیران ہوا، ابھی وہ اس آواز کی جستجو کے لیئے کوشش ہی کر رہا تھا کہ چوک میں اسے ایک لڑکا دکھائی دیا، جو چیختا چلاتا بھاگتا چلا آ رہا تھا۔

خالد کے گھر کے عین مقابل وہ لڑکا لڑکھڑا کر گرا اور گرتے ہی بیہوش ہو گیا، اسکی پنڈلی پر ایک گہرا زخم تھا جس سے فواروں خون نکل رہا تھا۔

یہ سماں دیکھ کر خالد بہت خوفزدہ ہوا، بھاگ کر اپنے والد کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ "ابا، ابا، بازار میں ایک لڑکا گر پڑا ہے، اسکی ٹانگ سے بہت خون نکل رہا ہے۔"

یہ سنتے ہی خالد کا باپ کھڑکی کی طرف گیا اور دیکھا کہ واقعی ایک نوجوان لڑکا بازار میں اوندھے منہ پڑا ہے۔

بادشاہ کے خوف سے اسے جرأت نہ ہوئی کہ وہ اس لڑکے کو سڑک پر سے اٹھا کر سامنے والی دکان کے پٹڑے پر لٹا دے۔ بے ساز و برگ افراد کو اٹھانے کے لیئے حکومت کے اربابِ حل و عقد نے آہنی گاڑیاں مہیا کر رکھی ہیں۔ مگر اس معصوم بچے کی نعش جو انہی کے تیغِ ستم کا شکار تھی، وہ ننھا پودا جو انہی کے ہاتھوں مسلا گیا تھا، وہ کونپل جو کھلنے سے پہلے انہی کی عطا کردہ بادِ سموم سے جھلس گئی تھی، کسی کے دل کی راحت جو انہی کے جور و استبداد نے چھین لی تھی، اب انہی کی تیار کردہ سڑک پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ۔ موت بھیانک ہے مگر ظلم اس سے کہیں زیادہ خوفناک اور بھیانک ہے۔

"ابا اس لڑکے کو کسی نے پیٹا ہے؟"

خالد کا باپ اثبات میں سر ہلاتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔

جب خالد اکیلا کمرے میں رہ گیا تو سوچنے لگا کہ اس لڑکے کو اتنے بڑے زخم سے کتنی تکلیف ہوئی ہو گی جبکہ ایک دفعہ اسے قلم تراش کی نوک چبھنے سے تمام رات نیند نہ آئی تھی اور اسکا باپ اور ماں تمام رات اسکے سرہانے بیٹھے رہے تھے۔ اس خیال کے آتے ہی اسے ایسا معلوم ہونے لگا کہ وہ زخم خود اسکی پنڈلی میں ہے اور اس میں شدت کا درد ہے۔۔۔۔۔۔یکلخت وہ رونے لگا۔

اسکے رونے کی آواز سن کر اسکی والدہ دوڑی دوڑی آئی اور اسے گود میں لے کر پوچھنے لگی۔ "میرے بچے رو کیوں رہے ہو؟"

"امی اس لڑکے کو کسی نے مارا ہے؟"

"شرارت کی ہو گی اس نے۔"

خالد کی والدہ اپنے خاوند کی زبانی زخمی لڑکے کی داستان سن چکی تھی۔

"مگر سکول میں تو شرارت کرنے پر چھڑی سے سزا دیتے ہیں، لہو تو نہیں نکالتے۔" خالد نے روتے ہوئے اپنی والدہ سے کہا۔

"چھڑی زور سے لگ گئی ہو گی۔"

"تو پھر کیا اس لڑکے کا والد سکول میں جا کر اس استاد پر خفا نہ ہو گا جس نے اسکے لڑکے کو اس قدر مارا ہے۔ ایک روز ماسٹر صاحب نے میرے کان کھینچ کر سرخ کر دیئے تھے تو ابا جی نے ہیڈ ماسٹر کے پاس جا کر شکایت کی تھی نا۔"

"اس لڑکے کا ماسٹر بہت بڑا آدمی ہے۔"

"اللہ میاں سے بھی بڑا؟"

"نہیں ان سے چھوٹا ہے۔"

"تو پھر وہ اللہ میاں کے پاس شکایت کرے گا۔"

"خالد اب دیر ہو گئی ہے، چلو سوئیں۔"

"اللہ میاں میں دعا کرتا ہوں کہ تو اس ماسٹر کو جس نے اس لڑکے کو پیٹا ہے اچھی طرح سزا دے اور اس چھڑی کو چھین لے جسکے استعمال سے خون نکل آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے پہاڑے یاد نہیں کئے، اس لئے مجھے بھی ڈر ہے کہ کہیں وہی چھڑی میرے استاد کے ہاتھ نہ آ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر تم نے میری باتیں نہ مانیں تو پھر میں بھی تم سے نہ بولوں گا۔"

سوتے وقت خالد دل میں دعا مانگ رہا تھا۔