آج اپنے دل سے پھر الجھا ہوں میں

آج اپنے دل سے پھر الجھا ہوں میں (1938)
by محمد صادق ضیا
324506آج اپنے دل سے پھر الجھا ہوں میں1938محمد صادق ضیا

آج اپنے دل سے پھر الجھا ہوں میں
مدعا یہ ہے کہ دیکھوں کیا ہوں میں

روکنا اے مادیت کے حجاب
خود بخود افشا ہوا جاتا ہوں میں

ہے مری آنکھوں میں کیف بے خودی
خواب دوشیں سے ابھی جاگا ہوں میں

چاندنی راتوں میں جب اٹھتی ہے موج
نور بن کر چاند میں بہتا ہوں میں

کس قدر رنگین ہے میرا مزاج
صبح کے پھولوں کا گہوارہ ہوں میں

گلستاں میں چھیڑ کر غنچوں کے ساز
خود بخود اک گیت گا لیتا ہوں میں

جادۂ ہستی ہے اک راہ غلط
یہ کہاں گم ہو کے آ پہونچا ہوں میں

دور تک کوئی نہیں ہے ہم خیال
ایسے خواب آباد میں تنہا ہوں میں

کاروان زندگی آگے گیا
پر غبار اک صبح کا تارا ہوں میں

تنگ ہے مجھ پر فضائے کائنات
ذرے کی آغوش میں صحرا ہوں میں

زندگی کی بجھ گئیں شمعیں ضیاؔ
تیرگیٔ شب کا پروانہ ہوں میں


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).