آج تک دل کی آرزو ہے وہی
آج تک دل کی آرزو ہے وہی
پھول مرجھا گیا ہے بو ہے وہی
سو بہاریں جہاں میں آئی گئیں
مایۂ صد بہار تو ہے وہی
جو ہو پوری وہ آرزو ہی نہیں
جو نہ پوری ہو آرزو ہے وہی
مان لیتا ہوں تیرے وعدے کو
بھول جاتا ہوں میں کہ تو ہے وہی
تجھ سے سو بار مل چکے لیکن
تجھ سے ملنے کی آرزو ہے وہی
صبر آ جائے اس کی کیا امید
میں وہی، دل وہی ہے، تو ہے وہی
ہو گئی ہے بہار میں کچھ اور
ورنہ ساغر وہی سبو ہے وہی
عمر گزری تلاش میں لیکن
گرمیٔ ہائے جستجو ہے وہی
مے کدہ کا جلیلؔ رنگ نہ پوچھ
رقص جام و خم و سبو ہے وہی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |