آج دل بیقرار ہے کیا ہے

آج دل بیقرار ہے کیا ہے
by میر حسن دہلوی

آج دل بیقرار ہے کیا ہے
درد ہے انتظار ہے کیا ہے

جس سے جلتا ہے دل جگر وہ آہ
شعلہ ہے یا شرار ہے کیا ہے

یہ جو کھٹکے ہے دل میں کانٹا سا
مژہ ہے نوک خار ہے کیا ہے

چشم بد دور تیری آنکھوں میں
نشہ ہے یا خمار ہے کیا ہے

میرے ہی نام سے خدا جانے
ننگ ہے اس کو عار ہے کیا ہے

جس نے مارا ہے دام دل پہ مرے
خط ہے یا زلف یار ہے کیا ہے

کیوں گریبان تیرا آج حسنؔ
اس طرح تار تار ہے کیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse