آج شبیرؔ پہ کیا عالمِ تنہائی ہے

آج شبیرؔ پہ کیا عالمِ تنہائی ہے
by میر انیس
294947آج شبیرؔ پہ کیا عالمِ تنہائی ہےمیر انیس

آج شبیرؔ پہ کیا عالمِ تنہائی ہے
ظلم کی چاند پہ زہراؔ کی گھٹا چھائی ہے
اس طرف لشکرِ اعدا میں صف آرائی ہے
یاں نہ بیٹا نہ بھتیجا نہ کوئی بھائی ہے
برچھیاں کھاتے چلے جاتے ہیں تلواروں میں
مار لو پیاسے کو ہے شور ستمگاروں میں

زخمی بازو ہیں کمرخم ہے بدن میں نہیں تاب
ڈگمگاتے ہیں نکل جاتی ہے قدموں سے رکاب
پیاس کا غلبہ ہے لب خشک ہیں آنکھیں ہیں پر آب
تیغ سے دیتے ہیں ہر وار کا اعدا کو جواب
شدتِ ضعف میں جس جا پہ ٹھہر جاتے ہیں
سیکڑوں تیر ستم تن سے گذر جاتے ہیں

گیسو آلودۂ خوں لپٹے ہیں رخساروں سے
شانے کٹ کٹ کے لٹک آئے ہیں تلواروں سے
تیرہ پیوست ہیں خوں بہتا ہے سوفاروں سے
لاکھ آفت میں ہے اک جان دل آزاروں سے
فکر ہے سجدۂ معبود ہیں سر دینے کی
دار سے تیغوں کے فرصت نہیں، دم لینے کی

خون سے تر پیچ عمامے کے ہیں سر زخمی ہے
ہے جبیں چاند سی پر نور مگر زخمی ہے
سینہ سب برچھیوں سے تا بہ کمر زخمی ہے
تیرِ بیداد سے دل زخمی، جگر زخمی ہے
ضربِ شمشیر سے بیکار ہیں بازو دونوں
ظلم کے تیروں سے مجروح ہیں پہلو دونوں

برچھی آ کر کوئی پہلو میں لگا جاتا ہے
مارتا ہے کوئی نیزہ تو غش آجاتا ہے
بڑھتے ہیں زخمِ بدن، زور گھٹا جاتا ہے
بند آنکھیں ہیں، سرِ پاک جھکا جاتا ہے
گردِ زہراؔ و علیؔ گریہ کناں پھرتے ہیں
غل ہے گھوڑے سے امام دو جہاں گرتے ہیں

گرتے ہیں قطرۂ خوں زخمِ جبیں سے پیہم
دستِ مجروح سے کھنچ سکتے نہیں تیرِ ستم
فکر ہے بخششِ امت کی کچھ اپنا نہیں غم
کرتے ہیں شکرِ خدا خشک زباں سے ہر دم
ہے عبا تیروں سے غرباں قبا گلگوں ہے
ہونٹ یا وقت سے زخمی ہیں دہن پر خوں ہے

زیں سے ہوتا ہے جدا دوشِ محمد کا مکیں
چمنِ فاطمہ کا سرو ہے مائل بہ زمیں
برچھیاں گرد ہیں اور بیچ میں ہیں سرورِ دیں
ہے یہ نزدیک گرے مہرِ نبوت کا نگیں
پاؤں ہر بار رکابوں سے نکل جاتے ہیں
یا علیؔ کہتی ہے زینبؔ تو سنبھل جاتے ہیں

لاکھ تلواریں ہیں اورایک تنِ اطہر ہے
ایک مظلوم ہے اور ظالموں کا لشکر ہے
سیکڑوں خنجرِ فولاد ہیں اور اک سر ہے
نہ کوئی یار، نہ ہمدم، نہ کوئی یاور ہے
باگ گھوڑے کی لٹکتی ہے، اٹھا سکتے نہیں
سامنے اہلِ حرم روتے ہیں، جا سکتے ہیں

کوئی سید کا نہیں آہ، بچانے والا
حربے لاکھوں ہیں، اور اک زخم اٹھانے والا
پیاس میں کوئی نہیں، پانی پلانے والا
سنبھلے کس طرح بھلا، برچھیاں کھانے والا
چرخ سے آگ برستی ہے زمیں جلتی ہے
مارے گرمی کے زباں خشک ہے، لُو چلتی ہے

کہیں دم لینے کو سایہ نہیں، ہے وقت زوال
اینٹھی جاتی ہے زباں پیاس کی شدت ہے کمال
کبھی زینبؔ کا ہے غم گاہ سکینہؔ کا خیال
دن جو ڈھلتا ہے تو حضرت ہوئے جاتے ہیں نڈھال
مثلِ خورشید، بدن ضعف سے تھراتا ہے
نیر برجِ امامت پہ زوال آتا ہے

کہتے ہیں ظالموں سے، خشک زباں دکھلا کر
بہرِ حق پانی کا، اک جام پلادو لا کر
اہلِ کیں کہتے ہیں یہ تیغِ ستم چمکا کر
آبِ شمشیر پیو برچھیوں کے پھل کھا کر
یہ سخن سن کے بھی غصہ نہیں فرماتے ہیں
یاس سے سوئے فلک دیکھ کے رہ جاتے ہیں

عرض کرتے ہیں یہ خالق سے کہ اے لبِ غفور!
تو ہے عالم کہ نہیں کچھ ترے بندے کا قصور
کرتے ہیں یہ مجھے بے جرم و خطا تیغوں سے چور
ہاتھ امت پہ اٹھانا نہیں مجھ کو منظور
جانتے ہیں کہ محمدؔ کا نواسا ہوں میں
پانی دیتے نہیں دو روز کا پیاسا ہوں میں

تو نے بچپن سے مرے ناز اٹھائے یارب
وہ عنایت کیا جو تجھ سے کیا میں نے طلب
تیرا محبوب بنا عید کو میرا مرکب
روزہ رکھا تو چھپا مہر نمایاں ہوئی شب
بھوک میں خلد کا کھانا مجھے امداد کیا
بھیج کر ہرنی کا بچہ مرا دل شاد کیا

اب اگر ہے یہ تری مصلحت اے ربِّ قدیر
ہو رواں حلق پہ اس پیاسے کے آبِ شمشیر
میرے مولا بہ سر و چشم ہے حاضر شبیر
حکمِ حاکم میں یہ طاقت ہے کروں میں تاخیر
جلد گردن پہ رواں، خنجرِ برّآں ہووے
اے خوشا وہ، جو تری راہ میں قرباں ہووے

غم نہیں کچھ مجھے گو بیکس و بے یار ہوں میں
زیرِ شمشیر گلا رکھنے کو تیار ہوں میں
تو مددگار ہے، مختار ہے لاچار ہوں میں
وقتِ مشکل ہے، عنایت کا طلبگار ہوں میں
تیرے سجدے میں یہ سر تن سے جدا ہو جاوے
عہدِ طفلی کا جو وعدہ ہے، وفا ہو جاوے

سختیاں مرگ کی کر اپنے کرم سے آساں
لب پہ تکبیر ہو، جب خلق پہ خنجر ہو رواں
دل میں ہو یاد تری، بند ہو جس وقت زباں
دم بھروں تیرا ہی تن سے جو نکلنے لگے جاں
بعدِ چہلم جو مجھے قبر میسر ہووے
زخمی تن پر نہ فشار اے مرے داور ہووے

رحم کر رحم کر شرمندہ ہوں اے یارِ خدا
بندگی کا ترے جو حق تھا ادا ہو نہ سکا
خوفِ محشر سے، بدن کانپتا ہے، سرتاپا
ہوگی اعمال کی پرسش تو، کہوں گا میں کیا؟
کوئی تحفہ ترے لائق نہیں پاتا ہے حسینؔ
ہاتھ خالی ترے دربار میں آتا ہے حسینؔ

تقویت دل کو کرم سے ہے ترے یا رحماں
نہیں مایوس کہ رحمت ہے تری بے پایاں
مشکلیں بندوں کی کر دیتا ہے دم میں آساں
شکر الطاف و عنایات میں قاصر ہے زباں
عاصیوں سے بھی محبت نہیں کم کرتا ہے
جرم وہ کرتے ہیں تو لطف و کرم کرتا ہے

میں تری راہ میں مظلومی سے ہوتا ہوں فدا
تو ہے آگاہ کہ دو دن کا ہوں بھوکا پیاسا
چاہتا ہوں میں یہی، اپنی شہادت کا صلا
مغفرت امتِ عاصی کی ہو اے بارِ خدا
ہے گوارا مجھے جو کچھ کہ اذیت ہووے
ان کو دنیا میں بھی عقبیٰ میں بھی راحت ہووے

عرض کرتے تھے یہ خالق سے شۂ بندہ نواز
یک بیک عالمِ بالا سے یہ آئی آواز
اے مرے شیر کے فرزند، نبی کے دمساز
تجھ سے ہم خوش ہیں پذیرا ہے ترا عجر و نیاز
مرد ہے عاشقِ کامل ہے، وفادار ہے تو
جو کہا وہ ہی کیا صادق الاقرار ہے تو

تو بھی مقبول ہے اور تیری عبادت بھی قبول
یہ اطاعت بھی ہے مقبول، یہ طاعت بھی قبول
عاجزی بھی تری مقبول، شہادت بھی قبول
تیری خاطر سے ہمیں بخششِ امت بھی قبول
ہم نے خیل شہدا کا تجھے سردار کیا
امتِ احمد مختار کا مختار کیا

دوست داروں کا ترے گلشنِ جنت ہے مقام
تاابد سایۂ طوبیٰ میں کریں گے آرام
ہوں گے محشور ترے ساتھ عزادار تمام
تجھ کو جو روئیں گے آنچ ان پہ ہے دوزخ کی حرام
غم نہ کھا! اہلِ جہاں تیرے محب سارے ہیں
تو ہے پیارا، ترے پیارے میں بھی ہمیں پیارے ہیں

ہوں گے ہر رنج سے، محفوظ ترے تعزیہ دار
سختیِٔ مرگ نہ ان کو ہے، نہ ایذائے فشار
دمِ مردن نظر آوے گا علیؔ کا دیدار
قبر سے گلشنِ فردوس کی دیکھیں گے بہار
دار دنیا ہی میں ہیں جو سو انہیں ایذا ہے
آنکھیں جب بند ہوئیں پھر، درِ جنت وا ہے

تجھ سا عابد نہ ہوا ہے، نہ کوئی ہووے گا
تیر کھا کھا کے کسی نے بھی ہے یوں شکر کیا
طاعتِ خلق سے اک سجدہ ہے افضل تیرا
عرشِ اعظم پہ، ملائک تری کرتے ہیں ثنا
سارا گھر میری محبت میں، فنا تو نے کیا
بندگی کا تھا جو کچھ حق وہ ادا تو نے کیا

حشر تک روئے گا مظلومی پہ تیری عالم
تیرا ماتم نہیں ہووے گا جہاں میں کبھی کم
روضۂ پاک کو تیرے یہ شرف بخشیں گے ہم
آئیں گے جس کی زیارت کو ملک ہو کے بہم
یہ زمیں عرش سے رتبے میں سوا ہووے گی
خاک تربت کی تری خاکِ شفا ہووے گی

یہ صدا سن کے ہوئے شاد شۂ ہر دوسرا
آ گئی از سرِ نو جسم میں طاقت گویا
جھک کے سجدے کی طرف عجز سے رو کر یہ کہا
میرے مولا میں تری بندہ نوازی کے فدا
کیوں نہ ممتاز ہو وہ تو جسے رتبہ بخشے
اس کفِ خاک کو کیا رتبۂ اعلیٰ بخشے

ابھی مولا نے سرِ عجز اٹھایا نہ تھا آہ
نیزہ اک چھاتی پہ مارا جو کسی نے ناگاہ
غش میں گرنے لگے گھوڑے سے امامِ ذی جاہ
آئی خاتونِ قیامت کی صدا بسم اللہ
تھامنے آئے علیؔ خلد سے گھبرائے ہوئے
دوڑے محبوبِ خدا ہاتھوں کو پھیلائے ہوئے

اک جفا کیش نے پھر پہلو پہ نیزہ مارا
چھد گیا توڑ کے چھاتی کو کلیجہ سارا
پشتِ تازی پہ، سنبھلنے کا نہ پایا یارا
گر پڑا خاک پہ، وہ عرشِ خدا کا تارا
گرد آلود قبائے شۂ پرنور ہوئی
ریت زخموں کے لیے مرہم کافور ہوئی

خاک و خوں میں جو تڑپتے تھے ، شہنشاہِ زمن
گل کے مانند کھلے جاتے تھے سب زخمِ بدن
طلبِ آب میں کھولے ہوئے تھے خشک دہن
گرد کھینچے ہوئے تلواریں کھڑے تھے دشمن
غمِ ناموس بھی تھا، پیاس کی بھی شدت تھی
پھر سکینہؔ کو نہ دیکھ آئے یہی حسرت تھی

کان میں آتی تھی زینبؔ کے صدائے جاںکاہ
دل تڑپ جاتا تھا کرتے تھے عجب درد سے آہ
راہ روکے ہوئے خیمے کی، کھڑے تھے گمراہ
نیم وا چشم سے کرتے تھے سوئے خیمہ نگہ
تنِ زخمی پہ جو پیکانِ ستم گڑتے تھے
خاک سے اٹھتے تھے اور کانپ کے گر پڑتے تھے

کہتا تھا فوج میں سب سے عمر بد اختر
کھنچے کیوں تیغوں کو ہاتھوں میں کھڑے ہو ششدر
ریگِ تفتیدہ پہ ہے غش میں، علیؔ کا دلبر
جاؤ کیا دیر ہے ، کاٹو شۂ مظلوم کا سر
تیغ سے فاطمہؔ زہرا کا گلا چاک کرو
جلد ہاں خاتمۂ پنجتن پاک کرو

ایسے مظلوم کا، سر کاٹنا کیا ہے دشوار
جس کا کوئی بھی مددگار، نہ ہمدرد، نہ یار
عورتیں ہیں کئی خیمے میں غریب و ناچار
مر چکے پہلے ہی جو خون کے تھے دعویدار
خوں بہا بھی نہ کوئی مانگنے کو آوے گا
اک پسر ہے سو وہ بیمار ہے مرجاوے گا

کانپ کر کہتے تھے سب ہم سے نہ ہوگا یہ ستم
ذبح فرزندِ محمدؔ کو نہیں کرنے کے ہم
ایسے مظلوم کی چھاتی پہ جو رکھے گا قدم
پاؤں جل جائے گا تھرائے گا عرشِ اعظم
پیٹتے قبر سے محبوب خدا آویں گے
بخدا فاطمہ کی آہ سے جل جاویں گے

کون بے کس کو بھلا ذبح کرے بے تقصیر
پھرتا ہے کوئی پیاسے کے گلے پر شمشیر؟
گو کہ بے کس ہے پہ آساں نہیں، قتلِ شبیرؔ
حشر میں ہوئیں گے محبوبِ خدا دامن گیر
تو سمجھتا ہے کہ اس کا کوئی خوں خواہ نہیں
بنتِ احمدؔ نہیں، حیدر نہیں، اللہ نہیں

تھا جو دمساز عمر ابن نمیر اظلم
بڑھ کے تیغ اس نے سرِ شاہ پہ ماری اس دم
تا جبیں ہو گیا مجروح سرِ شاہِ امم
تھام کر سر کو پکارے یہ امامِ عالم
نہ میسر تجھے اس ہاتھ سے کھانا ہووے
تو تہی دست جہنم کو روانہ ہووے

چاہا ظالم نے کہ پھر شۂ پہ کرے تیغ کا وار
دیکھا انگشت بدنداں ہیں رسولؐ مختار
خشک اس وقت ہوئے دستِ ستمگر اک بار
ہاتھ سے تیغ گری خوف سے بھاگا، خوں خوار
یاں سرِ پاک سے حضرت کے لہو جاری تھا
خم سوئے قبلہ تھے، بند آنکھیں تھیں غش طاری تھا

جب تڑپنے کی بھی طاقت نہ رہی سرور کو
غل ہوا یہ کہ غش آیا، خلفِ حیدر کو
فوج سے شمر بڑھا کھینچے ہوئے خنجر کو
سب سے کہتا تھا کہ اب کاٹو سرِ سرور کو
خلفِ احمدِ مختار کا قاتل ہوں میں
کام میرا ہے، اسی کام کے قابل ہوں میں

مجھ کو حیدرؔ سے غرض ہے نہ محمدؔ سے ہے کام
رو دیں محبوبِ خدا ہووے خوشی حاکمِ شام
دولتِ فاطمہؔ لے جاؤں میں پاؤں انعام
روح حیدرؔ کی ہو بے چین، مجھے ہو آرام
منہ نہ میں دولتِ دنیا سے کبھی پھیروں گا
آج زہراؔ کے کلیجے پہ چھری پھیروں گا

تیز کرتا ہوا خنجر کو گیا شہ کے قریں
آسماں ہل گیا تھرا گئی مقتل کی زمیں
رو رو چلانے لگی زینبِؔ ناشادِ حزیں
غش میں بھی گھیرے ہیں، ہے ہے مرے بھائی کو لعیں
رحم زہراؔ کے پسر پر نہیں کھاتا کوئی
خاک سے بھی نہیں زخمی کو اٹھاتا کوئی

کس سے فریاد کروں، جا کے میں دکھیا ہے ہے
نہ محمدؔ ہیں نہ حیدرؔ ہیں نہ زہرا ہے ہے
لاکھ دشمن ہیں مرا بھائی ہے تنہا ہے ہے
تیغوں سے کٹتا ہے، زہراؔ کا کلیجا ہے ہے
سروِ گلزارِ رسالت کو قلم کرتے ہیں
ہائے سید پہ، مسافر پہ ستم کرتے ہیں

گرد زینب کے تھا ناموس پیمبر کا ہجوم
بانو روتی تھی، کھڑی پیٹتی تھی سر، کلثوم
کہتی تھی دیکھ کے میداں کو سکینہ معصوم
اے پھوپھی! نرغۂ اعدا میں ہیں شاہِ مظلوم
جاؤں گی اب میں ٹھہرنے کی نہیں آپ کے پاس
شمرؔ خنجر لیے جاتا ہے ، مرے باپ کے پاس

باپ کے پاس سے ، جا کر اسے سرکاؤں گی
جوڑ کر ہاتھوں کو منت سے میں سمجھاؤں گی
اپنے بابا کی میں چھاتی سے لپٹ جاؤں گی
خیمے تک ان کو سنبھالے ہوئے لے آؤں گی
بھوکے پیاسے، مرے بابا کو نہ مارے کوئی
ان کے بدلے، مرا سر تن سے اتارے کوئی

کتنا روکا اسے بانو نے پہ ہرگز نہ رکی
چھوٹے سے ہاتھون سے سر پیٹتی میداں کو چلی
پیچھے سر کھولے ہوئے خیمے سے زینبؔ نکلی
پہونچی رن میں تو سکینہؔ یہ عمر سے بولی
او لعیں حیدرِؔ کرار کی پوتی ہوں میں
رحم کر! مجھ پہ کہ بِن باپ کی ہوتی ہوں میں

دیکھ غربت کو مری کر مرے بچپن پہ نظر
باپ مارا گیا میرا تو جیوں گی کیوں کر؟
سر پہ آوے گی یتیمی تو میں جاؤں گی کدھر؟
میں تو ہوں باپ کی شیدا مرا عاشق ہے پدر
باپ بن ایک دم آرام نہ آوے گا مجھے
کون پھر رات کو چھاتی پہ سلاوے گا مجھے

ہنسلیاں اپنی گلے سے تجھے دیتی ہوں اتار
لے مرے کان کا دُر، پر مرے بابا کو نہ مار
ہاتھوں کو جوڑتی ہوں میں ترے آگے ناچار
منع کردے کوئی بیکس کو نہ مارے تلوار
گھر میں جو کچھ زر و زیور ہے، وہ لادوں گی میں
جان بابا کی بچے گی تو دعا دوں گی میں

بھیڑ میں مجھ کو نظر آتے نہیں بابا جاں
اتنا کہہ دے کہ سرک جائیں یہ سب بے ایماں
گرد پھر پھر کے، میں ہوں اپنے پدر کے قرباں
جا کے دیکھوں گی، بدن پر ہیں لگے زخم کہاں
دمِ آخر تو بھلا کام میں آؤں ان کے
اپنے کرتے سے لہو منہ کا چھڑاؤں ان کے

کتنا کہتی رہی وہ بنتِ شۂ عرشِ جناب
اس ستمگر نے دیا کچھ نہ سکینہؔ کو جواب
پیٹ کر سر کہا زینبؔ نے کہ او خانہ خراب
تجھ کو آتا نہیں کچھ روحِ پیمر سے حجاب
ظلم مت کر اسد اللہ کی جائی ہوں میں
ننگے سر پردے سے باہر نکل آئی ہوں میں

میری اماں کا ہے مشہور جہاں میں پردا
بعدِ رحلت بھی جنازہ نہ کسی نے دیکھا
اس کی بیٹی ہوں، ترے ظلم سے ، یہ وقت پڑا
سر برہنہ ہوں، گریباں بھی ہے کرتے کا پھٹا
منہ کو اللہ و پیمبر سے چھپاتا ہے تو
میں تو فریادی ہوں، اور آنکھ چراتا ہے تو

مارا جاتا ہے ترے سامنے زہراؔ کا پسر
دیکھتا ہے تو یہ تلواریں ہیں پڑتی کس پر
تیر کس کو لگے غربال ہوا کس کا جگر
ذبحِ کرنے کو کسے کھینچے ہے ظالم خنجر
دلِ زہرا، جگر شیرِ خدا، کٹتا ہے
ظلم سے تیرے، محمدؔ کا گلا کٹتا ہے

قتل مظلوم کو کیوں کرتا ہے، بے جرم و گناہ
اب تلک میں نے بہت صبر کیا ہے واللہ
دل جلی ہوں میں ابھی سینے سے کھینچوں گر آہ
تو بی جل جائے، تری فوج بھی ہو خاک سیاہ
بد دعا دوں میں تو نازل ابھی آفت ہووے
سر کے بالوں کو جو کھولوں تو قیامت ہووے

غش میں حضرت نے سنے جبکہ یہ زینبؔ کے سخن
کھول کر دیدۂ پرخوں کو اٹھائی گردن
دیکھا سر ننگے کھڑی روتی ہیں مقتل میں بہن
بنتِ زہراؔ کو پکارے یہ شہنشاہِ زمن
کیا کیا تم نے کہ پردے سے کھلے سر نکلیں
جیتے جی میرے سر پردے سے باہر نکلیں

کس کو سمجھاتی ہو، کوئی نہ سنے گا فریاد
باز آئے گا نہیں، قتل سے میرے جلاد
جتنا تم پیٹتی ہو، اور لعیں ہوتے ہیں شاد
حشر کے روز خدا دیوے گا اس خون کی داد
شوق مرنے کا ہے، سر تن سے جدا ہونے دو
جاؤ گھر میں، مجھے امت پہ فدا ہونے دو

گود میں میری سکینہؔ کو اٹھاؤ ہمشیر
کوئی اصغر کی طرح مار نہ بیٹھے اسے تیر
پھر یہ بیٹی کو پکارے ترے صدقے شبیرؔ
تو بھی جا ساتھ پھوپھی جان کے اب اے دلگیر
وقتِ طاعت ہے ذرا یادِ خدا کر لیویں
ہم بھی اب آتے ہیں، سجدے کو ادا کر لیویں

کہہ کے یہ غش ہوئے پھر رن میں شہنشاہ امم
شمرِ اظلم نے رکھا، سینۂ اقدس پہ قدم
جگرِ فاطمہؔ زہرا پہ چلی تیغِ دو دم
آگے زینبؔ کے ہوئے ذبح حسینؔ آہ ستم
پیٹ کر بنت شہنشاہِ زمن رونے لگی
باپ کو بیٹی، برادر کو بہن رونے لگی

فتح کا فوج مخالف میں بجا نقارا
غل ہوا قتل ہوا شیر خدا کا پیارا
بس انیسؔ اب نہیں گویائی کا مجھ کو یارا
غم سے خوں ہو گیا سینہ میں کلیجا سارا
کس سے اس درد و مصیبت کا بیاں ہوتا ہے
آنکھیں روتی ہیں قلم روتا ہے دل روتا ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.