آج پھر اس گلی میں جاتے ہیں
آج پھر اس گلی میں جاتے ہیں
اپنی قسمت کو آزماتے ہیں
لب شیریں سے دیتے ہیں دشنام
شہد میں زہر وہ ملاتے ہیں
کیجئے وار تیغ ابرو کا
سر تسلیم ہم جھکاتے ہیں
عشق میں ہو گئے ہیں ہم مزدور
ناز محبوبوں کے اٹھاتے ہیں
مجھ کو گھائل جو ان کو کرنا ہے
زہر میں تیغ کو بجھاتے ہیں
وہ برس پڑتے ہیں اگر مجھ پر
میرے دل کی لگی بجھاتے ہیں
زلف چھو لی جو میں نے وہ بولے
تم سے گستاخ مار کھاتے ہیں
ہجر میں کیا کہیں غذا کیا ہے
غم جاں کاہ روز کھاتے ہیں
مجھ سے رونق ہے ان کی محفل کی
شمع ساں مجھ کو وہ جلاتے ہیں
بعد مردن یہ ان کی دل سوزی
شمع لے کر لحد پہ آتے ہیں
ترک عشق بتاں کیا اے بدرؔ
اب مدینہ کو ہم تو جاتے ہیں
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |