آج گلشن میں کس کا پرتو ہے

آج گلشن میں کس کا پرتو ہے
by جوشش عظیم آبادی

آج گلشن میں کس کا پرتو ہے
ہر کلی گل کی شمع کی لو ہے

خضر ہر چند پہنچے آب حیات
زندگی جیسے پانی کی رو ہے

پیسے ہے اس کو آسیائے فلک
جس کے پاس ایک مشت بھی جو ہے

غیر سے لینا امتحان وفا
یہ جفا مجھ پر از سر نو ہے

ہے کدھر وہ غزال جس کے لیے
رات دن مجھ کو یہ تگ و دو ہے

ہے یہ ؔجوشش وفا سرشتوں میں
تو جو کہتا ہے بے وفا تو ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse