آدمی آدمی سے ملتے ہیں
آدمی آدمی سے ملتے ہیں
آپ بھی کیا کسی سے ملتے ہیں
یہ حسیں جس کسی سے ملتے ہیں
جانتا ہے مجھی سے ملتے ہیں
ہم سے فرقت نصیب کیا جانیں
جو مزے زندگی سے ملتے ہیں
کیا بتائیں جنوں میں کیا کیا لطف
ہم کو ان کی ہنسی سے ملتے ہیں
کیا کہیں جب وہ ملتے ہیں تنہا
ان سے ہم کس خوشی سے ملتے ہیں
اس کی صورت کو پھر کوئی دیکھے
جس سے وہ بے رخی سے ملتے ہیں
ان کی رخصت کے وقت ہم ان سے
ہائے کس بیکسی سے ملتے ہیں
لاکھ غم زندگی ہے خود یعنی
لاکھ غم زندگی سے ملتے ہیں
اپنے مذہب میں ہے نفاق حرام
جس سے ملتے ہیں جی سے ملتے ہیں
سخن داغؔ کے مرے راغبؔ
سخن شوقؔ ہی سے ملتے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |