آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
by مرزا محمد رفیع سودا

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا

سرگرم نالہ ان دنوں میں بھی ہوں عندلیب
مت آشیاں چمن میں مرے متصل بنا

جب تیشہ کوہ کن نے لیا ہاتھ تب یہ عشق
بولا کہ اپنی چھاتی پہ دھرنے کو سل بنا

جس تیرگی سے روز ہے عشاق کا سیاہ
شاید اسی سے چہرۂ خوباں پہ تل بنا

لب زندگی میں کب ملے اس لب سے اے کلال
ساغر ہماری خاک کو متھ کرکے گل بنا

اپنا ہنر دکھاویں گے ہم تجھ کو شیشہ گر
ٹوٹا ہوا کسی کا اگر ہم سے دل بنا

سن سن کے عرض حال مرا یار نے کہا
سوداؔ نہ باتیں بیٹھ کے یاں متصل بنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse