آرام پھر کہاں ہے جو ہو دل میں جائے حرص

آرام پھر کہاں ہے جو ہو دل میں جائے حرص
by مرزا محمد رفیع سودا

آرام پھر کہاں ہے جو ہو دل میں جائے حرص
آسودہ زیر خاک نہیں آشنائے حرص

ممکن نہیں ہے یہ کہ بھرے کاسۂ طمع
دن میں کروڑ گھر جو پھرا دے گدائے حرص

انساں نہ ہوں ذلیل زمانے کے ہاتھ سے
ذلت کسی کو کوئی نہ دیوے سوائے حرص

کر منہ کو ٹک بسوے قناعت یہ حرف مان
رہتی ہے لاکھ طرح کی آفت قفائے حرص

ناداں تلاش طرۂ زر سے تو باز آ
جوں شمع یہ نہ ہو کہ ترا سر کٹائے حرص

اپنے سوا کسی کو نہ پایا حریف حیف
کی قطع روزگار نے ہم پر قبائے حرص

سوداؔ بسر ہو خوبی سے اوقات ہر طرح
پر درمیاں نہ ہووے بشرطیکہ پائے حرص

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse