آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا

آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا
by اختر شیرانی

آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا
کیا بتاؤں کہ مرے دل میں ہیں ارماں کیا کیا

غم عزیزوں کا حسینوں کی جدائی دیکھی
دیکھیں دکھلائے ابھی گردش دوراں کیا کیا

ان کی خوشبو ہے فضاؤں میں پریشاں ہر سو
ناز کرتی ہے ہوائے چمنستاں کیا کیا

دشت غربت میں رلاتے ہیں ہمیں یاد آ کر
اے وطن تیرے گل و سنبل و ریحاں کیا کیا

اب وہ باتیں نہ وہ راتیں نہ ملاقاتیں ہیں
محفلیں خواب کی صورت ہوئیں ویراں کیا کیا

ہے بہار گل و لالہ مرے اشکوں کی نمود
میری آنکھوں نے کھلائے ہیں گلستاں کیا کیا

ہے کرم ان کے ستم کا کہ کرم بھی ہے ستم
شکوے سن سن کے وہ ہوتے ہیں پشیماں کیا کیا

گیسو بکھرے ہیں مرے دوش پہ کیسے کیسے
میری آنکھوں میں ہیں آباد شبستاں کیا کیا

وقت امداد ہے اے ہمت گستاخی شوق
شوق انگیز ہیں ان کے لب خنداں کیا کیا

سیر گل بھی ہے ہمیں باعث وحشت اخترؔ
ان کی الفت میں ہوئے چاک گریباں کیا کیا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse