آزادی رائے

آزادی رائے
by سید احمد خان
319303آزادی رائےسید احمد خان

ہم اپنے اس آرٹیکل کو ایک بڑے لائق اور قابل زمانہ حال کے فیلسوف کی تحریر سے اخذ کرتے ہیں۔ رائے کی آزادی ایک ایسی چیز ہے کہ ہر ایک انسان اس پر پورا پورا حق رکھتا ہے۔ فرض کرو کہ تمام آدمی بجز ایک شخص کے کسی بات پر متفق الرائے ہیں، مگر صرف وہی ایک شخص ان کے بر خلاف رائے رکھتا ہے تو ان تمام آدمیوں کو اس ایک شخص کی رائے کو غلط ٹھہرانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ استحقاق نہیں ہے جتنا کہ اس ایک شخص کو ان تمام آدمیوں کی رائے کے غلط ثابت کرنے کا (اگر وہ ثابت کر سکے) استحقاق حاصل ہے۔

کوئی وجہ اس بات کی نہیں ہے کہ پانچ آدمیوں کو تو بمقابلہ پانچ آدمیوں کی رایوں کے غلط ٹھہرانے کا استحقاق ہو اور ایک آدمی کو بمقابل نو آدمیوں کے یہ استحقاق نہ ہو۔ رائے کی غلطی آدمیوں کی تعداد کی کمی بیشی پر منحصر نہیں ہے، بلکہ قوت استدلال پر منحصر ہے۔ جیسے کہ یہ بات ممکن ہے کہ نو آدمیوں کی رائے بمقابلہ ایک شخص کے صحیح ہو ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص کی رائے بمقابل نو کے صحیح ہو۔

رایوں کا بند رہنا خواہ بسبب کسی مذہبی خوف کے اور خواہ بسبب اندیشہ برادری وقوم کے اور خواہ بدنامی کے ڈر سے اور یا گورنمنٹ کے ظلم سے نہایت ہی بری چیز ہے۔ اگر رائے اس قسم کی کوئی چیز ہوتی جس کی قدر و قیمت صرف اس رائے والے کی ذات ہی سے متعلق اور اسی میں محصور ہوتی تو رایوں کے بند رہنے سے ایک خاص شخص یا معدودے چند کا نقصان متصور ہوتا مگر رایوں کے بند رہنے سے تمام انسانوں کی حق تلفی ہوتی ہے اور کل انسانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور نہ صرف موجودہ انسانوں کو، بلکہ ان کو بھی جو آئندہ پیدا ہوں گے۔

اگر چہ رسم و رواج بھی اس کے بر خلاف رایوں کے اظہار کے لئے ایک بہت قوی مزاحم کا رگنا جاتا ہے، لیکن مذہبی خیالات مخالف مذہب رائے کے اظہار اور مشتہر ہونے کے لیے نہایت اقوی مزاحم کار ہوتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ اس مخالف رائے کا ظاہر ہونا ان کو نا پسند ہو اہے، بلکہ اسی کے ساتھ جوش مذہبی امنڈ آتا ہے اور عقل سلیم نہیں رکھتا اور اس حالت میں ان سے ایسے افعال و اقوال سرزد ہوتے ہیں جو ان ہی کے مذہب کو جس کے وہ طرف دار ہیں مضرت پہنچاتے ہیں۔ وہ خود اس بات کے باعث ہوتے ہیں کہ بسبب پوشیدہ رہنے ان اعتراضوں کے ان ہی کے مذہب کے لوگ ان کے حل پر متوجہ نہ ہوں اور مخالفوں کے اعتراض بلا تحقیق کیے بلا دفع کیے باقی رہ جاویں۔

وہ خود اس بات کے باعث ہوتے ہیں کہ ان کی آئندہ نسلیں بسبب نا تحقیق باقی رہ جانے ان اعتراضوں کے جس وقت ان اعتراضوں سے واقف ہوں، اسی وقت مذہب سے منحرف ہو جاویں، وہ خود اس بات کے باعث ہوتے ہیں کہ وہ اپنی نادانی سے تمام دنیا پر گویا یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ اس مذہب کے جس کے وہ پیرو ہیں، مخالفوں کے اعتراضوں سے سے نہایت ہی اندیشہ ہے۔ اگر انہی کے مذہب کا کوئی شخص بغرض حصول اغراض مذکورہ ان کو پھیلانا چاہے تو خود اس کو معترض کی جگہ تصور کرتے ہیں اور اپنی نادانی سے دوست کو دشمن قرار دیتے ہیں۔

کیا عمدہ رائے اس فیلسوف کی ہے کہ ’’کسی رائے کے حامیوں کا اس رائے کے بر خلاف رائے کے مشتہر ہونے میں مزاحمت کرنے سے خود ان حامیوں کابہ نسبت ان کے مخالفوں کے زیادہ تر نقصان ہے، اس لیے کہ اگر وہ رائے صحیح و درست ہو تو اس کی مزاحمت سے غلطی کے بدلے صحیح بات حاصل کرنے کا موقع ان کے ہاتھ سے جاتا ہے اور اگر وہ غلط ہے تو اس بات کا موقع باقی نہیں رہتا کہ غلطی اور صحت کے مقابلے سے جو صحت کو زیادہ استحکام اور اس کی سچائی زیادہ تر دلوں پر مؤثر ہوتی ہے اور اس کی روشنی دلوں میں بیٹھ جاتی ہے، اس نتیجے کو حاصل کریں جو فی الحقیقت نہایت عمدہ فائدہ ہے۔‘‘

کچھ شبہ نہیں ہے کہ عموما ًمخالف اور موافق رایوں کا پھیلنا اور منتشر ہونا، خواہ وہ دینی معاملے سے علاقہ رکھتی ہو ں یا دنیوی معاملے سے، نہایت ہی عمدہ اور مفید ہے۔ دونوں قسم کی رایوں پر جد ا جدا غور کرنے کا موقع ملتا ہے کہ ان میں سے کون سی بہتر ہے یا ان دونوں کی تائید ایسے دلائل سے ہوتی ہے جو جداگانہ ہر ایک کے مناسب ہیں۔ ہم کو اس بات کا کبھی یقین کامل نہیں ہو سکتا کہ جس رائے کی مزاحمت میں پابند رہنے میں ہم کوشش کرتے ہیں وہ غلط ہی ہے اور اگر یقین بھی ہو کہ وہ غلط ہے تو بھی اس کی مزاحمت اور اس کا انسداد برائی سے خالی نہیں۔

فرض کرو کہ جس رائے کا بند کرنا ہم چاہتے ہیں حقیقت میں وہ رائے صحیح و درست ہے اور جو لوگ اس کا انسداد چاہتے ہیں وہ اس کی درستی اور صحت سے منکر ہیں، مگر غور کرنا چاہیے کہ وہ لوگ، یعنی اس رائے کے بند کرنے والے ایسے نہیں ہے جن سے غلطی اور خطا ہونی ممکن نہ ہو توا ن کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ اس خاص معاملے کو تمام انسانوں کے لیے خود فیصل کریں اور شخصوں کو اپنی رائے کام میں لانے سے محروم کردیں۔ کسی مخالف رائے کی سماعت سے اس وجہ سے ا نکار کرنا کہ ہم کواس کے غلط ہونے کا یقین ہے، گویا یہ کہنا ہے کہ ہمار ایقین یقین کامل کا رتبہ رکھتا ہے اور اس پر بحث و گفتگو کی ممانعت کرنا انبیاء سے بھی بڑھ کر اپنا رتبہ ٹھہرانا ہے اور اپنے تئیں ایسا سمجھنا ہے کہ ہم سے سہو و خطا کا ہونا نا ممکن ہے۔

انسانوں کی سمجھ پر بڑا افسوس ہے کہ جس قدر وہ اپنے خیال و قیاس میں اپنے سے اس مشہور مقولے کی سند پر کہ ’’الانسان مرکب من الخطاء والنسیان‘‘ سہو و خطا کا ہونا ممکن سمجھتے ہیں اس قدر اپنی رایوں اور اپنی باتوں کے عمل در آمد میں نہیں سمجھتے۔ ان کی عملی باتوں سے اس کی قدر و منزلت نہایت ہی خفیف معلوم ہوتی ہے، گو خیال میں اس کی کیسی ہی قدر و منزلت سمجھتے ہوں۔ اگر چہ سب اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم سے سہو و خطا ہونی ممکن ہے۔ مگر بہت ہی کم آدمی ایسے ہوں گے جو اس کا خیال رکھنا اور ازروئے عمل کے بھی اس کی احتیاط کرنا ضرور سمجھتے ہوں اور عملی طور پر اس بات کو تسلیم کرتے ہوں کہ جس رائے کی صحت کا ان کو خوب یقین ہے شاید وہ ا سی سہو و خطا کی مثال ہو جس کا ہونا وہ اپنے سے ممکن سمجھتے ہیں۔

جو لوگ کہ دولت و منصب اور حکومت یا علم کے سبب غیر محدود تعظیم و ادب کے عادی ہوتے ہیں، وہ تمام معاملات میں اپنی رایوں کے صحیح ہونے پر یقین کامل رکھتے ہیں اور اپنے میں سہو و خطا ہونے کا احتمال بھی نہیں کرتے اور جو لوگ ان سے کسی قدر زیادہ خوش نصیب ہیں، یعنی وہ کبھی کبھی اپنی رایوں پر اعتراض اور حجت تکرار ہوتے سنتے ہیں اور کچھ کچھ اس بات کے عادی ہوتے ہیں کہ جب غلطی پر ہوں تو منتنبہ ہونے پر اس کو چھوڑ دیں اور درست بات مان لیں، اگر چہ ان کو اپنی ہر ایک رائے کی درستی پر یقین کامل تو نہیں ہوتا، مگر ان رایوں کی درستی پر ضرور یقین ہوتا ہے جن کو وہ لوگ جو ان کے ارد گرد رہتے ہیں یا ایسے لوگ جن کی بات کو نہایت ادب و تعظیم کے قابل سمجھتے ہیں ان رایوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ جو شخص جس قدر اپنی ذاتی رائے پر اعتماد نہیں رکھتا وہ شخص اسی قدر دنیا کی رائے پر عموما زیادہ تر اعتماد رکھتا ہے جس کو بعضی اصطلاحوں میں جمہور کی رائے یا جمہور کا مذہب کہا جاتا ہے۔

مگر یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک دنیا سے یا جمہور سے وہ چند اشخاص معدود مراد ہوتے ہیں جن سے وہ اعتقاد رکھتا ہے یا جن سے وہ ملتا جلتا ہے، مثلا اس کے دوستوں یا ہم راویوں کا فریق یا اس کی ذات برادری کے لوگ یا اس کے درجے و رتبے کے لوگ۔ پس اس کے نزدیک تمام دنیا اور جمہور کے معنی انہی میں ختم ہو جاتے ہیں اور اس لیے وہ شخص اس رائے کو دنیا کی یا جمہور کی رائے سمجھ کر اس کی درستی پر زیادہ تر یقین کرتا ہے۔ اس ہیئت مجموعی رائے کا جو اعتماد اور یقین اس کو زیادہ ہوتا ہے اور ذرا بھی اس میں لغزش نہیں آتی، اس کا سبب یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ اس بات سے واقف نہیں ہوتا کہ اس کے زمانے سے پہلے اور زمانوں کے، اور ملکوں کے، اور فرقوں کے، اور مذہبوں کے لوگ اس میں کیا رائے رکھتے تھے اور اب بھی اور ملکوں اور فرقوں اور مذہبوں کے لوگ کیا رائے رکھتے ہیں۔

ایسے شخص کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ اس بات کی جواب دہی کو کہ در حقیقت وہ راہ راست پر چلتا ہے اپنی فرضی دنیا یا جمہور کے ذمے ڈالتا ہے۔ پس جو کچھ اس کی رائے یا اس کا حال ہو، کچھ بھی اعتبار اور یقین کے لائق نہیں ہے، اس لیے جن وجوہات سے وہ شخص بسبب مسلمان خاندان میں پیدا ہونے اس وقت بڑا مقدس مسلمان ہے۔ انہیں وجوہات سے اگر وہ عیسائی خاندان یا ملک یا بت پرست خاندان یا ملک میں پیدا ہوتا تو وہ بھلا چنگا عیسائی یا بت پرست ہوتا۔ وہ مطلق اس بات کا خیال نہیں کرتا کہ جس طرح کسی خاص شخص کا خطا میں پڑنا ممکن ہے اسی طرح اس کی فرضی دنیا اور خیالی جمہور کی تو کیا حقیقت ہے۔ زمانے کے زمانے کا اور اس سے بھی بہت بڑ ی دنیا کا خطا میں پڑنا ممکن ہے۔ تاریخ سے اور علوم موجودہ سے بخوبی ظاہر ہے کہ ہر زمانے میں ایسی ایسی رائیں قائم ہوئیں اور مسلم قرار پائیں جو اس کے بعد کے زمانے میں صرف غلط ہی نہیں بلکہ سراسر لغو و مہمل سمجھی گئیں اور یقینا ًاس زمانے میں بھی بہت سی ایسی رائیں مروج ہوں گی جو کسی آئندہ زمانہ میں اسی طرح مردود اور نا معقول ٹھہریں گی جیسے کہ بہت سی رائیں جو اگلے زمانے میں عام طور پر مروج تھیں اور اب مردود ہو گئی ہیں۔

اس تقریر پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ جو لوگ مخالف رائے کو غلط اور مضر سمجھ کر اس کی مزاحمت کرتے ہیں، اس سے ان کا مطلب اس بات کا دعویٰ کرنا کہ وہ غلطی سے آزاد و بری ہیں، نہیں ہوتا، بلکہ اس سے اس فرض کا ادا کرنا مقصود ہوتاہے جو ان پر با وصف قابل سہو و خطا ہونے کے اپنے ایمان اور اپنے یقین کے مطابق عمل کرنے کا ہے۔ اگر لوگ اس وجہ سے اپنی رایوں کے موافق کاربند نہ ہوں کہ شاید وہ غلط ہوں تو کوئی شخص اپنا کوئی کام بھی نہیں کر سکتا۔ لوگوں کا یہ فرض ہے کہ حتی المقدور اپنی نہایت درست رائیں قائم کریں اور بغور ان کو قرار دیں اور جب ان کی درستی کا بخوبی یقین ہو جاوے تو اس کے مخالف رایوں کے بند کرنے اور مزاحمت کرنے میں کوشش کریں۔

آدمیوں کو اپنی استعداد و قابلیت کو نہایت عمدہ طور سے برتنا چاہیے۔ یقین کامل کسی امر میں نہیں ہو سکتا، مگر ایسا یقین ہو سکتا ہے جو انسان کے مطالب کے لیے کافی ہو۔ انسان اپنی کار روائی کے لیے اپنی رائے کو درست و صحیح سمجھ سکتے ہیں اور ان کو ایسا ہی سمجھنا چاہیے۔ اور وہ اس سے زیادہ اور کوئی بات اس صورت میں اختیا ر نہیں کرتے جب کہ وہ خراب آدمیوں کو ممانعت کرتے ہیں کہ ایسی رایوں کے شایع کرنے سے جو ان کے نزدیک فاسد اور مضر ہیں، لوگوں کو خراب یا بد اخلاق یا بد مذہب نہ کریں۔

مگر مخالف رائے کے بند کرنے میں صر ف اتنا ہی نہیں ہوتا کہ انہوں نے اپنے تئیں قابل سہو و خطا سمجھ کر اپنے ایمان اور اپنے یقین کے موافق عمل کیا ہے، بلکہ اس سے بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس بات میں کہ ایک رائے کو اس وجہ سے صحیح سمجھا جاوے کہ اس پر اعتراض و حجت کرنے کا ہر طرح پر لوگوں کو موقع دیا گیا اورا س کی تردید نہ ہو سکی اور اس بات میں کہ ایک رائے کو اس وجہ سے مان لیا گیا کہ اس کی تردید کی کسی کو اجازت نہیں ہوئی، زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ پس مخالف رایوں کی مزاحمت کرنے والے اپنی رائے کو اس وجہ سے صحیح نہیں سمجھتے کہ اس کی تردید نہیں ہو سکی، بلکہ اس لیے صحیح ٹھہراتے ہیں کہ اس کی تردید کی اجازت نہیں ہوئی، حالانکہ جس شرط سے ہم بطور جائز اپنی رائے عمل در آمد ہونے کے لیے درست قرار دے سکتے ہیں وہ صرف یہی ہے کہ لوگوں کو اس بات کی کامل آزادی ہو کہ وہ اس رائے کے بر خلا ف کہیں اور اس کو غلط ثابت کریں۔

اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے کہ انسان جس کے قوائے عقلی اور قویٰ کامل نہیں ہیں، اپنے آپ کو راہ راست ہونے کا یقین کر سکے۔ اہل مذاہب جو صرف اپنے معتقد فیہ کی پیروی ہی راہ راست سمجھتے ہیں، جب تک کہ وہ بھی اس بات پر مباحثے اور اظہار رائے کی اجازت نہ دیں کہ جس طرح پر ان کا عمل در آمد اور چال چلن یا اعتقاد اور خیال ہے وہ صحیح طور سے ان کے معتقد فیہ کی پیروی ہے یا نہیں، اس وقت تک وہ بھی اپنے آپ کو راہ راست پر ہونے کا یقین نہیں کر سکتے۔

انسان کی پچھلی حالتوں کو موجودہ حالتوں سے مقابلہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانے میں انسانوں کا یہ حال ہے کہ سو میں ایک ہی شخص اس قابل ہوتا ہے کہ کسی دقیق معاملے پر رائے دے اور ننانوے شخص اس میں رائے دینے کی لیاقت نہیں رکھتے، مگر اس ایک آدمی کی رائے کی عمدگی بھی صرف اضافی ہوئی ہے، اس لیے کہ اگلے زمانے کے لوگوں میں اکثر آدمی جو سمجھ بوجھ اور لیاقت میں مشہور تھے ایسی رائیں رکھتے تھے کہ جن کی غلطی اب بخوبی روشن ہو چکی ہے۔ بہت سی ایسی باتیں ان کو پسندیدہ اور ان کے عمل در آمد تھیں جن کو اب کوئی بھی ٹھیک اور درست نہیں سمجھتا اور ا س سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانوں میں ہمیشہ معقول رایوں اور پسندیدہ رایوں کو غلبہ رہتا ہے، مگر اس کا سبب بجز انسان کی عقل و فہم کی ایک عمدہ صفت کے جو نہایت ہی پسندیدہ ہے اور کوئی نہیں۔ اور وہ صفت یہ ہے کہ انسان کی غلطیاں اصلاح کی صلاحیت رکھتی ہیں، یعنی انسان اپنی غلطیوں کو مباحثے اور تجربے کے ذریعے سے درست کر لینے کی قابلیت رکھتا ہے۔

پس انسان کی رائے کی بتمامہ قوت اور قدر و منزلت کا حصر اس ایک بات پر ہے کہ جب وہ غلط ہو تو صحیح کی جا سکتی ہے، مگر اس پر اعتماد اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب کہ ا س کے صحیح کرنے کے ذریعے ہمیشہ برتاؤ میں رکھے جاویں۔ خیال کرنا چاہیے کہ جس آدمی کی رائے حقیقت میں اعتماد کے قابل ہے اس کی و ہ رائے اس قدر و منزلت کو کس وجہ سے پہنچی ہے؟ اسی وجہ سے پہنچی ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنی طبیعت پر اس بات کو گوارا رکھا ہے کہ اس کی رائے پر نکتہ چینیاں کی جاویں اور اس نے اپنا طریقہ یہ ٹھہرایا ہے کہ اپنے مخالف کی رائے کو ٹھنڈے دل سے سننا اور اس میں جو کچھ درست اور واجب تھا، اس سے مستفید ہونا اور جو کچھ اس میں غلط اور نا واجب تھا اس کو سمجھ لینا اور موقع پر اس غلطی سے اوروں کو بھی آگا ہ کر دینا۔ ایسا شخص گویا اس بات کو عملی طور پر تسلیم کرتا ہے کہ جس طریقے سے انسان کسی معاملے کے کل مدارج کو جان سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس کی بابت ہر قسم کی رائے کے لوگوں کی گفتگو کو سنے اور جن جن طریقوں سے ہر سمجھ اور طریقے اور طبیعت کے آدمی اس معاملے پر نظر کریں ان سب طریقوں کو سوچے اور سمجھے۔

کسی دانا آدمی نے اپنی دانائی بجز اس طریقے کے اور کسی طرح پر حاصل نہیں کی۔

انسان کی عقل و فہم کا خاصہ یہی ہے کہ وہ اس طور کے سوا اور کسی طور سے مہذب اور معقول ہو ہی نہیں سکتی اور صرف اس بات کی مستقل عادت کے سوا کہ اپنی رائے کو اوروں کی رایوں سے مقابلہ کرکے اس کی اصلاح و تکمیل کیا کرے اور کوئی بات اس پر اعتما د کرنے کی وجہ متصور نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ اس صور ت میں اس شخص نے لوگوں کی ان تمام باتوں کو جو اس کے بر خلا ف کہہ سکتے تھے بخوبی سنا اور تمام معترضوں کے سامنے اپنی رائے کو ڈالا اور بعوض اس کے کہ مشکلاتوں اور اعتراضوں کو چھپاوے خود اس نے جستجو کی اور ہر طرف سے جو کچھ روشنی پہنچی اس کو بند نہیں کیا۔ تو ایسا شخص البتہ اس بات کے خیال کرنے کا استحقاق رکھتا ہے کہ میری رائے ایسے شخص یا اشخاص سے جنہوں نے اپنی رائے کو اس طرح پر پختہ نہیں کیا بہتر و فائق ہے۔

جس شخص کو اپنی رائے پر کسی قدر بھروسہ کرنے کی خواہش ہو یا یہ خواہش رکھتا ہو کہ عام لوگ بھی اس کو تسلیم کریں اس کا طریقہ بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے کو عام مباحثے اور ہر قسم کے لوگوں کو اعتراض کے لیے حاضر کرے۔ اگر نیوٹن صاحب کی حکمت اور ہیئت اور مسئلہ ثقل پر اعتراض اور حجت کرنے کی اجازت نہ ہو تی تو دنیا اس کی صحت اور صداقت پر ایسا پختہ یقین نہ کر سکتی جیسا کہ اب کرتی ہے۔ کیا کچھ مخالفت ہے جو لوگوں نے اس دانا حکیم کے ساتھ نہیں کی اور کون سی مذہبی لعن و طعن ہے جو اس سچے اور سچی رائے رکھنے والے حکیم کو نہیں دی گئی، مگر غور کرنا چاہیے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہ ہوا کہ آج تمام دنیا، کیا دانا اور کیا نادان، کیا حکیم اور کیا متعصب، اہل مذہب سب اسی کو تسلیم کرتے ہیں اور اسی کو سچ جانتے ہیں اور مذہبی عقائد سے بھی زیادہ اس کی سچائی دلوں میں بیٹھی ہے۔

بغیر آزادی رائے کے کسی چیز کی سچائی جہاں تک کہ اس کی سچائی دریافت ہونی ممکن ہے، دریافت نہیں ہو سکتی۔ جن اعتقادوں کو ہم نہایت جائز و درست سمجھتے ہیں ان کے جو از و درستی کی اور کوئی سند اور بنیاد بجز اس کے نہیں ہو سکتی کہ تمام دنیا کو اختیار دیا جاوے کہ وہ ان کو بے بنیاد ثابت کریں۔ اگر وہ لوگ ایسا قصد نہ کریں یا کریں اور کامیاب نہ ہوں تو بھی ہم ان پر یقین کامل رکھنے کے مجاز نہیں ہے، البتہ ایسی اجازت دینے سے ہم نے ایک ایسا نہایت عمدہ ثبوت ان کی صحت کا حاصل کیا ہے جو انسانوں کی عقل کی حالت موجودہ سے ممکن تھا۔

کیونکہ ایسی حالت میں ہم نے کسی ایسی بات سے غفلت نہیں کی جس سے صحیح صحیح بات ہم تک نہ پہنچ سکتی ہو اور اگر امر مذکور پر مباحثے کی اجازت جاری رہے تو ہم امید کر سکتے ہیں کہ اگر کوئی بات اس سے بہتر اور سچ اور صحیح ہے تو وہ ا س وقت ہم کو حاصل ہو جاوے گی جب کہ انسانوں میں عقل و فہم اس کے دریافت کرنے کے قابل ہوگی اور اس اثناء میں ہم اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ ہم راستی اور اور صداقت کے اس قدر قریب پہنچ گئے ہیں جس قدر کہ ہمارے زمانے میں ممکن تھا۔ غرضیکہ ایک خطاوار وجود جس کو انسان کہتے ہیں، اگر کسی امر کی نسبت کسی قدر یقین حاصل کر سکتا ہے تو اس کا یہی طریقہ ہے جو بیان ہو ا اور مسلمانی مذہب کا جو ایک مشہور مسئلہ ہے کہ الحق یعلو ولا یعلیٰ، یہ اس کی ایک ادنیٰ تفسیر ہے۔

مگر ایک بہت بڑا دھوکہ ہے جو انسانوں کو اور بعض دفعہ نیک گورنمنٹوں کو بھی آزادی رائے کے بند کرنے پر مائل کرتا ہے اور وہ مسئلہ سود مندی کا ہے جس کو غلط اور جھوٹا نام مصلحت عام کا دیا گیا ہے۔ وللہ درّ من قال۔ بر عکس نہند نام زنگی کافور اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ کسی رائے یا مسئلے یا عقیدے کی سچائی اور صحت پر بحث کرنے سے اس لیے ممانعت کی جاتی ہے کہ گو وہ فی نفسہ کیسا ہی ہو، مگر اس سے عام لوگوں کا پابند رہنا نہایت مفید اور باعث صلاح و فلاح عام لوگوں کا ہے اور فی زمانہ ہندوستان میں اور خصوصا ًمسلمانوں میں یہ رائے بکثرت رائج ہے، بلکہ اس گناہ کے کام کو ایک نیک کام تصور کیا جاتا ہے۔ اس رائے کا نتیجہ یہ ہے کہ مباحثے اور رایوں کی آزادی کا بند کرنا اس مسئلے یا عقیدے کی صحت سچائی پر منحصر نہیں ہے، بلکہ زیادہ تر مفید عام ہونے پر منحصر ہے۔

مگر افسوس ہے کہ ایسی رائے رکھنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ وہی دعوائے سابق، یعنی اپنے آپ کو ناقابل ناقابل سہو و خطا سمجھنے کا جس سے انہوں نے توبہ کی تھی، پھر پھر اکر قائم ہوجاتا ہے۔ صرف اتنا فرق ہوتا ہے کہ پہلے وہ دعویٰ ایک بات پر تھا اب وہی دعویٰ دوسری بات پر ہے، یعنی پہلے اس اصل مسئلے یا عقیدے کے سچ ہونے پر تھا اور اب اس کے مفید عام ہونے پر ہے، حالانکہ یہ بات بھی کہ وہ مسئلہ یا عقیدہ مفید عام ہے اسی قدر بحث ومباحثے کی محتاج ہے جس قدر کہ وہ اصل مسئلہ یا عقیدہ محتاج ہے۔

ایسی رائے رکھنے والے اس غلطی پر ایک اور دوسری غلطی یہ کرتے ہیں جب کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے صرف اس کی اصلیت اور سچائی پر بحث کی ممانعت کی ہے، اس کے مفید عام ہونے کی بحث پر ممانعت نہیں کی اور یہ نہیں سمجھتے کہ رائے کی صداقت خود اس کے مفید عام ہونے کا ایک جزو ہے۔ ممکن نہیں کہ ہم کسی رائے کے مفید عام ہونے پر بغیر اس کی صحت اور سچائی ثابت کیے بحث کر سکیں۔ اگر ہم یہ بات جاننی چاہتے ہیں کی آیا فلاں بات لوگوں کے حق میں مفید ہے یا نہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ اس بات پر توجہ نہ کریں کہ آیا وہ بات سچ اور صحیح و درست بھی ہے یا نہیں۔ ادنیٰ اور اعلیٰ سب اس بات کو قبول کریں گے کہ کوئی رائے یا مسئلہ یا اعتقاد جو صداقت اور راستی کے بر خلاف ہے در اصل کسی کے لیے مفید نہیں ہو سکتا۔

یہ تمام مباحثۃ جو ہم نے کیا، ایسی صورت سے متعلق تھا کہ رائے مروجہ اور تسلیم شدہ کو ہم نے غلط اور اس کے برخلاف رائے کو جس کا بند رکھنا لوگ چاہتے تھے، صحیح و درست فرض کیا تھا۔ اب اس کے بر خلاف شک کو اختیا ر کرتے ہیں، یعنی یہ فرض کرتے ہیں کہ رائے مروجہ اور تسلیم شدہ صحیح ہے اور اس کے بخلاف رائے کو جس کا بند کرنا چاہتے ہیں غلط اور نا درست ہے اور اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اس غلط رائے کا بند کرنا خالی برائی اور نقصان سے نہیں۔

ہر ایک شخص کو گو اس کی رائے کیسی ہی زبردست اور مضبوط ہو اور وہ کیسی ہی مشکل اور نا رضامندی سے اپنی رائے کے غلط ہونے کے امکان کو تسلیم کرے، یہ بات خوب یاد رکھنی چاہیے کہ اگر اس رائے پر بخوبی تمام اور نہایت بے باکی سے بے دھڑک مباحثہ نہیں ہو سکتا تو وہ ایک مردہ اور مردار رائے قرار دی جاوےگی نہ ایک زندہ اور سچی حقیقت، اور وہ کبھی ایسی حق اور سچ بات قرار نہیں پا سکتی جس کا اثر ہمیشہ لوگوں کی طبیعتوں پر رہے۔

گذشتہ اور حال کے زمانے کی تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعضی دفعہ ظالم گورنمنٹوں نے بھی نہایت سچی اور صحیح بات کے رواج پر کوشش کی، الا ان کے ظلم نے اس پر آزادی سے مباحثہ کی اجازت نہیں دی اور بہت سی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ نیک اور تربیت یافتہ گورنمنٹ نے نہایت سچی اور صحیح بات کا رواج دینا چاہا اور لوگوں نے یا تو اس خیال سے کہ ہمارے مباحثے اور دلائل کو اس رائے میں کچھ مداخلت نہیں ہے یا کوئی التفات نہیں کرتا، از خود مباحثے کو نہیں اٹھایا یا اپنے وہمی خوف سے یا اراکین گورنمنٹ کی بد مزاجی کے ڈر سے یا ان کی خلاف رائے کے کوئی بات نہ کہنی مصلحت وقت سمجھ کر یا یہ خیال کر کر کہ گورنمنٹ کے یا کسی کے برخلاف بحث کرنا خیر خواہی نہیں ہے، مباحثہ ترک کر دیا تو اس کا نتیجہ بجز اس کے اور کچھ نہیں ہوا کہ س تجویز نے کسی کے دلوں میں مطلق اثر نہیں کیا اور ایک مردہ رائے سے زیادہ اور کچھ رتبہ لوگوں کے دلوں میں نہیں پایا۔

یہ بات کہ سچی اور درست بات بے مباحثہ و دلیل کے بھی طبیعتوں میں بیٹھ جاتی ہے اور گھر کر لیتی ہے، ایک خوش آیند مگر غلط آواز ہے۔ دنیا کو دیکھو کہ گروہ کے گروہ ایک دوسرے کی متناقض رائے پر جمے ہوئے ہیں اور وہ متناقض رائیں ان کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہیں۔ پھر کیا وہ دونوں متناقض رائیں سچی اور صحیح ہیں؟ ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ بہت سی باتیں بے سمجھے اور بغیر دلیل کے اور بغیر مباحثے کے لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتی ہیں، مگر ان کا صحیح و درست ہونا ضرو ری نہیں۔ سچ میں کوئی ایسی اعجازی کرامات نہیں ہے کہ وہ از خود دلوں میں بیٹھ جاوے۔ اس میں جو کچھ کرامات ہیں وہ صرف اسی قدر ہے کہ مباحثے کا اس کو خوف نہیں۔

سچ رائے بھی اگر بلا دلیل و مباحثہ دل میں گھر کر لے تو وہ سچی رائے نہیں کہلاوے گی، بلکہ تعصب اور جہل مرکب اس کا مناسب نام ہوگا، مگر ایسا طریقہ حق اور سچ بات کے قبول کرنے کا ایک ذی عقل مخلوق کے لیے، جیسا کہ انسان ہے شایان نہیں اور نہ یہ طریقہ راستی و حق کے پہچاننے کا ہے، بلکہ حق بات جو اس طرح پر قبول کی جاتی ہے وہ ایک خیال فاسد و باطل ہے اور جن باتوں کو حق فرض کر لیا ہے ان کا اتفاقیہ قبول کر لینا ہے۔

نہایت سچ اور بالکل سچ تو یہ بات ہے کہ جس شخص نے جو رائے یا مذہب اختیار کیا ہے وہی شخص اس کا جواب دہ ہے۔ اس رائے کے موجد یا اس مذہب کے پیشوا اور معلم اور مجتہد کچھ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں، مگر مسلمانوں نے اس آفتا ب سے بھی زیادہ روشن مسئلے سے آنکھ بند کر لی ہے اور رومن کیتھولک، یعنی بت پرست عیسائیوں کا مسئلہ اختیار کیا ہے۔ رومن کیتھولک مذہب میں ان لوگوں کے جو اس مذہب پر ایمان رکھتے ہیں دو فرقے قرار دیے گئے ہیں، ایک تو وہ جو اس مذہب کے مسائل کو بعد دلیل و ثبوت کے قبو ل کرنے کے مجاز ہیں اور دوسرے وہ جن کو صرف اعتماد اور بھروسے، یعنی تقلید سے ان کو قبول کر لینا چاہیے۔ اسی قاعدے کی پیروی سے مسلمانوں نے بھی اپنے مذہب میں دو فریق قائم کیے ہیں ایک وہ جنہوں نے مسئلہ مسلمہ کو بعد ثبوت و تحقیقات اور اقامت دلیل تسلیم کیا ہے اور ان کا نام باختلاف درجات مجتہد مطلق اور مجتہد فی المذہب اور مرجع قرار دیا ہے۔

دوسرا وہ جن کو بے سمجھے بوجھے آنکھ بند کر کر ان کی پیروی کرنی چاہیے اور ان کا نام مقلد اور اس فعل کا نام تقلید قرا ر دیا ہے اور اس سبب سے مخالف رائے کی مزاحمت مسلمانوں میں بہت زیادہ پھیل گئی ہے اور وہ اس کی نسبت ایک نہایت عمدہ، مگر ابلہ فریب تقریر کرتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ تمام انسانوں کو ان تمام باتوں کا جاننا نہ ضرور ہے اور نہ ممکن ہے جن کو بڑے بڑے حکیم یا اہل معرفت اور عالم علوم دین جانتے اور سمجھتے ہیں اور نہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہر ایک عام آدمی ایک ذکی اور دانشمند مخالف کی تمام غلط بیانیوں کو جانے اور ان کو غلط ثابت کرے یا تردید کرنے اور غلط ثابت کرنے کے قابل ہو بلکہ صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ ان کے جواب دینے کے لائق ہمیشہ کوئی نہ کوئی موجود ہو ں گے جن کی بدولت مخالف کی کوئی بات بھی بلا تردید باقی نہ رہی ہوگی۔

پس سیدھی سادی عقل کے آدمیوں کے لیے یہی کافی ہے کہ ان باتوں کی اصلیت سکھلا دی جاوے اور باقی وجوہات کی بابت وہ اوروں کی سند پر بھروسا کریں اور جب کہ وہ خود اس بات سے واقف ہیں کہ ہم ان تمام مشکلات کے رفع دفع کرنے کے واسطے کافی علم اور پوری لیاقت نہیں رکھتے ہیں تو اس بات کا یقین کرکر مطمئن ہو سکتے ہیں کہ جو جو مشکلات اور اعتراض برپا کئے گئے ہیں وہ لوگ ان سب کا جواب دے چکے ہیں یا آئندہ دیں گے جو بڑے بڑے عالم ہیں۔

اس تقریر کو تسلیم کرنے کے بعد رائے کی آزادی اور مخالف رائے کی مزاحمت سے جو نقصان ہیں اس میں کچھ نقصان لازم نہیں آتا، کیونکہ اس تقریر کے بموجب بھی یہ بات قرا ر پاتی ہے کہ آدمیوں کو اس بات کا معقول یقین ہونا چاہئے کہ تمام اعتراضو ں کا جواب حسب اطمینان دیا گیا ہے اور یہ یقین جب ہی ہوسکتا ہے جب کہ اس پر بحث و مباحثہ کرنے کی آزادی ہو اور مخالفوں کو اجازت ہو کہ تمام اپنی وجوہات کو جو اس کے مخالف رکھتے ہیں بیان کریں اور اس مسئلے کو غلط ثابت کرنے میں کوئی کوشش باقی نہ چھوڑیں۔

اگر تقلید کی گرم بازاری کا جیسے کہ آج کل ہے اور آزادانہ مباحثے کی مزاحمت و عدم موجودگی کا اور بد اثر در صورتیکہ تسلیم شدہ مسئلے یا قرار دادہ رائیں صحیح ہوں، اسی قدر ہوتا کہ ان مسئلے یا ان رایوں کی اس قدر و منزلت میں کہ ان سے نہایت عمدہ اثر لوگوں کی خصلتوں پر ہوتا ہے کچھ نقصان ہے، مگر یہ بات نہیں ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر نقصان ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مباحثہ اور آزادی رائے کی عدم موجودگی میں صرف مسئلے یا رایوں کی وجوہات ہی کو لوگ نہیں بھو ل جاتے، بلکہ اکثر اس مسئلے یا رائے کے معنی اور مقصود کو بھی بھول جاتے ہیں، چنانچہ جن لفظوں میں وہ مسئلہ یا رائے بیان کی گئی ہے، ان سے کسی رائے یا خیال کا قائم کرنا تک موقوف ہوجاتا ہے یا جو جو باتیں ان لفظوں سے ابتداء میں مراد رکھی گئی تھیں ان میں بہت تھوڑی ہی معلوم رہ جاتی ہیں اور بعوض اس کے کہ اس مسئلے یا رائے کا اعتقاد ہر دم تر و تازہ اور زندہ، یعنی مؤثر رہے، اس کے صرف چندا دھورے کلمے حافظے کی بدولت باقی رہ جاتے ہیں اور اگر اس کی مراد اور معنی بھی کچھ باقی رہتے ہیں تو صرف ان کا پوست ہی پوست باقی رہتا ہے اور مغز و اصلیت نا بود ہو جاتی ہے۔ اب ذرا انصاف سے سے مسلمانوں کو اپنا حال دیکھنا چاہیے کہ تمام علوم معقول و منقول میں اس مزاحمت رائے یا تقلید کی بدولت ان کا در حقیقت ایسا ہی حا ل ہوگیا ہے یا نہیں۔

اس زمانے تک جس قدر کہ انسانوں کو تمام مذہبی عقائد اور اخلاقی امور اور علمی مسائل میں تجربہ ہوا ہے اس سے امور بالا کی صحت ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ کسی مذہب یا علم یا رائے کے موجد تھے ان کے زمانے میں اور ان کے خاص مریدوں یا شاگردوں کے دلوں میں تو وہ عقائد یا مسائل طرح طرح کے معنوں اور مرادوں اور خوبیوں سے بھر پور تھے اور کا سبب یہی تھا کہ ان میں اور ان کے مخالف رائے والوں میں اس غرض سے بحث و حجت رہتی تھی کہ ایک کو دوسرے کے عقیدے اور مسئلے پر غلبہ اور فوقیت حاصل ہو، مگر جب ا س کو کامیابی ہوئی اور بہت لوگوں نے اس کو مان لیا اور بحث اور حجت بند ہو گئی تو اس کی ترقی بھی ٹھہر گئی اور وہ اثر جو دلوں میں تھا اس میں بھی جان، یعنی حرکت اور جنبش نہیں رہی۔

ایسی حالت میں خود اس کے حامیوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ مثل سابق کے اپنے مخالفوں کے مقابلے پر آمادہ نہیں رہتے اور جیسے کہ اس مسئلے یا عقیدے کی پہلے حفاظت کرتے تھے ویسی اب نہیں کرتے۔ بلکہ نہایت جھوٹے غرور، بے جا استغناء سے سکون اختیار کرتے ہیں اور حتی الامکان اس عقیدے اور مسئلے کے بر خلاف کوئی دلیل نہیں سنتے اور اپنے گروہ کے لوگوں کو بھی کفر کے فتووں کے ڈراوے سے جہنم میں جانے کی جھوٹی دہشت دکھانے سے سننے سے اور اس پر بحث کرنے سے جہاں تک ہو سکتا ہے باز رکھتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ کہیں علموں کی روشنی جو آفتاب کی روشنی کی طرح پھیلتی ہے اوار اعتراضوں کی ہوا اگر وہ صحیح ہوں تو کیا ان کے روکے رک سکتی ہے اور جب یہ نوبت پہنچ جاتی ہے تو اس عقیدے یا مسئلے کا جن کو ان کے پیشواؤوں نے نہایت محنتوں سے قائم کیا تھا زوال شروع ہوتا ہے۔

اس وقت تمام معلم اور مقدس لوگ جو ا س کمبخت زمانے کے پیشوا گنے جاتے ہیں اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ معتقدوں کے دلوں میں ان عقیدوں کا جن کو انہوں نے برائے نام قبول کیا ہے کچھ بھی اثر نہیں پاتے اور باوجود یکہ وہ ظاہر میں ان عقیدوں اور مسئلوں کو قبول کرتے ہیں، مگر ان کا یسا اثر کہ ان کے معتقدوں کا چال چلن اور اخلاق اور عادات اور معاشرت بھی ان عقیدوں اور مسئلوں کے مطابق ہو مطلق نہیں پاتے، مگر افسوس اور نہایت افسوس کہ وہ معلم اور مقدس لوگ اتنا خیال نہیں فرماتے کہ یہ حال جو ہوا ہے جس کی وہ شکایت کرتے ہیں انہیں کی عنایت و مہربانی کا تو نتیجہ ہے۔ اب میں صاف کہتا ہوں اور نہایت بے دھڑک کہتا ہوں کہ یہ جو کچھ میں نے بیان کیا اس زمانے کے مسلمانوں کے حال ٹھیک ٹھیک آئینہ ہے۔

اب اس کے بر خلاف حالت کا خیال کرو، یعنی جب کہ آزادی رائے کی قائم رہتی ہے جس کے ساتھ مباحثے کا بھی قائم رہنا لازم و ملزوم ہوتا ہے اور ہر ایک حامی کسی عقیدے یا علمی مسئلے کا اپنے عقیدے یا مسئلے کی وجوہ کو قائم اور غالب رہنے پر بحث کرتا ہے تو اس وقت عام لوگ بھی اور سست عقیدے والے بھی اس بات کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم کس بات پر لڑ بھڑ رہے ہیں اورہمارے عقیدے اور مسئلے میں اور دوسروں عقیدے اور مسئلے میں کیا تفاوت ہے اور ایسی حالت میں ہزاروں ایسے آدمی پائے جاویں گے جنہوں نے اس عقیدے یا مسئلے کے اصول کو بخوبی خیال کیا ہوگا اور ہر ڈھنگ و طریقے سے اس کو خوب سمجھ لیا ہوگا اور اس کے عمدہ عمدہ پہلؤوں کو بخوبی جانچ اور تول لیا ہوگا اور ان کے اخلاق اور ان کی عادت و خصلت پر اس کا ایسا پورا پورا اثر ہوگا کہ جیسا کہ ایسے شخص کی طبیعت پر ہونا ممکن ہے، جس میں وہ عقیدہ یا مسئلہ بخوبی رچ بس گیا ہو۔

مگر جب کہ وہ عقیدہ ایک موروثی اعتقاد ہو جاتا ہے اور لوگ باپ دادا یا استاد پیر کی رسم متبرک کے طور پر قبو ل کرتے ہیں تو وہ تصدیق قلبی نہیں ہوتی، طبیعت کا میلان اس عقیدے یا مسئلے کے بھلا دینے پر ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ عقیدہ یا مسئلہ انسان کے باطن سے بے تعلق ہو جاتا ہے اور صرف اوپر ہی اوپر رہ جاتا ہے اور تمام اخلاق و عادات اس کے بر خلاف ہوتے ہیں اور ایسے حالات پیش آتے ہیں جیسے کہ اس زمانے میں اکثر پیش ہوتے رہتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا کہ وہ عقیدہ یا مسئلہ طبیعت کے باہر ہی باہر ایسے خراب اور کانٹے دار پوست کی مانند لپٹا ہوا ہے جس کے سبب وہ باتیں ظہور میں نہیں آئیں جو انسان کے عمدہ عمدہ اوصاف درونی سے تعلق رکھتی ہیں، بلکہ اس سے اس قسم کی قوت ظاہر ہوتی ہے جیسے کانٹے دار تھور کے درخت کی باڑ سے ہوتی ہے کہ و ہ نہ خود اس گھیری ہوئی زمین کو کچھ فائدہ دیتا ہے اور نہ اوروں کو گل پھول لے جا کاکر اس میں لگانے دیتا ہے اور بجز اس کے کہ دل کی زمین کو ہمیشہ خالی اور ویران اور بیکار پڑا رہنے دے اور کچھ نہیں کرتا۔

جو بات بیان ہوئی اس کی صحت ہر ایک مذہب والا اپنے حال پر غور کرنے سے بخوبی جان سکتا ہے۔ ہر ایک مذہب والا اپنے میں کسی نہ کسی کتاب کو مقدس سمجھتا ہے اور بطور قانون مذہب کے تسلیم کرتا ہے، مگر باایں ہمہ یہ بات کہنی کھچ مبالغہ نہیں کہ شاید ہزاروں میں ایک اپنی چال چلن کی جانچ اور اس کے برے یا بھلے ہونے کی آزمائش اس مقدس تسلیم شدہ قانون کے بموجب کرتا ہو، بلکہ جس چیز کی سند اور پابند ی پر وہ کام کرتے ہیں وہ صرف اپنی قوم یا فرقے یا مذہبی گروہ کا رسم و رواج ہوتا ہے نہ اور کچھ۔

پس حقیقت میں یہ حال ہوتا ہے کہ ایک طرف تو وہ اخلاقی مسائل کامجموعہ ہوتا ہے جس کی نسبت وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کی زندگی کے عمل در آمد کے لیے خدا نے بنایا ہے اور دوسری طرف اس رسم و رواج اور معتقد رایوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو اس قوم یا فرقے یا گروہ میں مروج ہوتی ہیں اور بعض کچھ مطابق اور بعض بالکل بر خلاف اور مذہب پر اعتقاد رکھنے والے اس پہلے مجموعے کی زبانی تصدیق تو بلاشبہ کرتے ہیں، الا اصلی اطاعت اور رفاقت اور پابندی اس پچھلے مجموعے کی کرتے ہیں جس پر روز مرہ ان کا عمل ہوتا ہے اور جس کا ترک کرنا یا اس کے برخلاف کوئی کام کرنا نہایت ننگ و عار جانتے ہیں۔ پس یہ بے قدری جو اس پہلے مجموعے کے مسائل کی ہوگئی جس کو وہ خدا کا بتایا ہوا جانتے تھے اسی بات سے ہوگئی کہ اس کے مسائل اور اصولوں پر مباحثہ بند ہوگیا۔ اور اس سبب سے انسان کے باطن سے بے تعلق ہو گیا اور بجائے زندہ عقیدے کے صرف بطور عقیدے کے لوگوں کے خیال میں رہ گیا۔

اس تقریر پر جو نہایت بڑا اور نہایت سخت اعتراض وارد ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ صحیح اور درست علم یا تجربہ حاصل کرنے کے لیے کیا یہ بات ضرور ہے کہ کبھی رایوں اتفاق نہ ہو، بلکہ ضرور ہے کہ چند آدمی غلطی پر مصر رہیں، تاکہ مباحثہ قائم رہے اور اور لوگ اس کی بدولت حق بات حاصل کر سکیں؟ کیا دنیا میں غلطیوں کا موجود رہنا صحیح رایوں کے حاصل کرنے کے لیے لابد ہے؟ جب کہ کسی عقیدے یا علمی مسئلے کو عموماً تسلیم کر لیا جاوے تو کیا اس کی حقیقت بدل جاتی ہے اور اس کی تاثیر جاتی رہتی ہے اور کیا کسی مسئلے یا عقیدے کا اس وقت تک اثر نہیں ہوتا یا لوگ اس کو بخوبی نہیں سمجھتے جب تک کہ کوئی اس پر شبہ نہ کرتا رہے؟ جب کہ انسان کسی حق بات کو بالاتفاق قبول کر لیتے ہیں تو کیا اس کی حقانیت معدوم ہو جاتی ہے؟ اب تک یہ خیال کیا گیا کہ علم اور عقل کی ترقی کا عمدہ مقصد اور اعلی نتیجہ یہ ہے کہ تمام انسان اچھی اچھی اور عمدہ باتوں میں متفق الرائے ہوویں اور وہ اتفاق رائے روز بروز زیادہ بڑھتا جاوے، پھر کیا علم اور عقل اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک کہ اس کا مقصد اور اس کا نتیجہ حاصل نہ ہو؟ یہ تو سنا گیا تھا کہ ہر بات کا کمال اس کے مقصد اور نتیجے کا حاصل ہونا ہے، مگر یہ نہیں سنا تھا کہ مقصد اور نتیجے کا حاصل ہونا ہی اس کا زوال ہے۔

مگر میرا مقصد یہ نہیں ہے جو اس اعتراض میں بیان ہوا۔ میں قبول کرتا ہوں کہ بلاشبہ جس قدر انسانوں کی ترقی اور تہذیب ہوگی اسی قدر مختلف فیہ رائیں اور مسئلے اور عقیدے گھٹتے جاویں گے، بلکہ آدمیوں کی بہبود اور بھلائی کا اندازہ بالتخصیص انہیں حقائق کی تعداد اور مقدار سے ہو سکتا ہے جو غیر متنازعہ فیہ یا حقائق محققہ کے مرتبے کو پہونچ جاتی ہیں اور اس کے استحکام کے لیے انسانوں کی رایوں کا اجماع اور اتفاق ضروری شرطوں میں سے ہے اور وہ اجماع اور اتفاق جیسا کہ غلط رائے پر ہونا نہایت مضر ہے ویسا ہی صحیح رائے ہونا نہایت مفید ہے، مگر جب کہ ہم کو غلط رایوں پر بھی اجماع اور اتفاق ہوجانے کا اندیشہ ہے تو ہم کو اس سے بچنے کی فکر و تدبیر سے غافل نہیں رہنا چاہیے اور وہ تدبیر یہی ہے کہ آزادی رائے اور مباحثہ جاری رہے۔ اگر اس تدبیر کے قائم رہنے کا بسبب عموما ًتسلیم ہوجانے اس مسئلے یا عقیدے کے موقع نہ رہے تو ہم کو اس کی جگہ کوئی اور تدبیر کرنا چاہیے۔ سقراط نے اسی تدبیر کے لیے فرضی مباحثے کا طریقہ ایجاد کیا تھا، جس کو افلاطون نے نہایت خوبی سے اپنے سوال و جواب میں بیان کیا ہے۔

مگر افسوس اور ہزار افسوس کہ اس زمانے کے مسلمانوں نے بجائے اس کے کہ اس تدبیر کے قائم رکھنے کا کوئی طریقہ ایجاد کریں ان تدبیروں کو بھی ضائع کر دیا جو سابق میں ایجاد ہوئی تھیں۔ مسلمانوں میں ہر ایک علم کی تحصیل کا مدت سے یہ حال رہ گیا ہے کہ سب کے سب کیا قصہ اور کہانی کی کتابوں کو اور کیا تاریخ اور واقعات گزشتہ کے روزنامچوں کو اور کیا ٹوٹے پھوٹے اگلے زمانے کے جغرافیے کو اور کیا لولی لنجی انسان کے بدن کی تشریح کو اور کیا دقیانوسی بطلیموسی ہیئت اور قدیم ریاضی کو اور کیا انسانوں کے اجتہادیات مسائل دینی کو جس کو علم فقہ کہا جاتا ہے اور کیا علم حدیث اور تفسیر کو اس ارادے سے مطلق نہیں پڑھتے کہ ہم کو اس کی اصلیت اور حقیقت معلوم ہو، بلکہ صرف یہ ارادہ ہوتا ہے کہ جو کچھ اس کتاب میں لکھا ہے خواہ، غلط خواہ صحیح، وہ ہم جان لیں۔

اگر مباحثہ کیا جاوے تو نہ اس بات پر کہ وہ اصول جو اس کتاب میں لکھے ہیں صحیح ہیں یا غلط، بلکہ اس بات پر کہ اس کتاب میں یہی بات لکھی ہے یا نہیں۔ اس طریقے اور عادت نے آزادی رائے کو کھو دیا اور اس سپر کو جس سے غلطی میں پڑنے سے حفاظت تھی، توڑ دیا۔ ان کے تمام علم و فضل غارت ہو گئے۔ ان کے باپ دادا کی کمائی جس سے توقع تھی کہ ان کی اولاد فائدہ اٹھائے گی سب ڈوب گئی۔ اب جو بڑے بڑے عالم فقیہ اور دانا رہ گئے ہیں ان کا یہ حال ہے کہ کسی چیز کی حقیقت سے کیا مسائل علمی اور کیا عقاید مذہبی میں کچھ بھی واقفیت نہیں رکھتے۔ جس شخص سے کسی بات کی حقیقت پوچھو اگر وہ بڑا ہی عالم ہے تو بجز اس کے کہ فلاں شخص نے یہ لکھا ہے اور کچھ نہیں بتا سکتا۔ تمام علوم کا مزہ اور تمام عقیدوں کا اثر دل سے جاتا رہا۔ پس آزادی رائے کے قائم نہ رہنے کے یہ عمدہ اثر ہیں جن کو ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔

آزادی رائے کے غیر مفید ہونے کے ثبوت میں یہ بات اکثر پیش کی جاتی ہے کہ آزادی رائے سے جس شخص کے ساتھ مباحثہ لازم و ملزوم ہے کسی رائے کے حق یا سچ ہونے کا فیصلہ ممکن نہیں، بلکہ ہر ایک فریق کو اپنی اپنی رائے پر اور زیادہ پختگی اوراصرار ہو جاتا ہے۔ میں بھی اس بات کا اقرار کرتا ہوں اور اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ درحقیقت تمام رایوں کا یہ خاصہ ہے کہ وہ خاص خاص فرقوں کی رائیں ہو جاتی ہیں۔ بحث و مباحثے کی کمال آزادی سے بھی اس کا کچھ تدارک نہیں ہو سکتا، بلکہ اس سے اور زیادتی ہوتی جاتی ہے اور حق کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے کہ بعوض اس کے کہ لوگ اس کو سمجھیں اور بوجھیں، اس وجہ سے اس کو نہیں سوچتے سمجھتے، بلکہ بے سوچے اور سمجھے نہایت زور شور سے رد کرتے ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کا قول ہے جن کو وہ اپنا مخالف جانتے ہیں یا ان سے نفرت رکھتے ہیں۔

مگر یہ بھی خوب جان لینا چاہیے کہ آپس میں رایوں کے اختلاف اور مباحثے سے انہی متعصب گروہوں کو جن کے باہم بحث ہوتی ہے، چنداں فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کا عمدہ اور مفید اثر ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اس کے دیکھنے سننے والے ہیں اور جن کی طبیعتوں میں وہ جذبہ و رارت اور خود غرضی اور طرف داری نہیں ہوتی جیسے کہ ان مخالف فرقوں کے حامیوں میں ہوتی ہے۔ اور جبکہ رفتہ رفتہ ان متعصبوں کی بھی حرارت کم ہو جاتی ہے، تو جو حق بات ہے وہ اس کے صحیح ہونے کا اقرار اپنے دل میں یا اپنے خاص دوستوں میں چپکے چپکے کرنے لگتے، گو کہ علانیہ کبھی اس کا اقرار نہ کریں۔

سچ بات پر سخت سے سخت نزاع کا ہونا کچھ برائی یا نقصان کی بات نہیں، بلکہ اس کا انسداد بہت بڑے نقصان کی بات ہے، جب کہ لوگ طرفین کے دلائل سننے پر مجبور ہوتے ہیں، تو ہمیشہ انصاف کی امید ہوتی ہے، مگر جب کہ وہ صرف ایک طرفہ بات سنتے ہیں ہیں تواس صورت میں غلطیاں سختی پکڑ کر تعصب بن جاتی ہیں اور سچ میں بھی سچ کا اثر اس لیے نہیں رہتا کہ اس میں مبالغہ ہوتے ہوتے وہ خود ایک جھوٹ بن جاتا ہے۔ انصاف کی قوت جو انسان میں ہے وہ اسی وقت بخوبی کام میں آتی ہے کہ ہر معاملے کے دونوں پہلوؤں کے حامی اور معاون تصفیے کے وقت رو برو موجود ہوں۔ اور وہ دونوں ایسے زبردست ہوں اپنے اپنے دلائل اور وجوہات کی سماعت پر لوگوں کو گویا مجبور کر دیں۔ اور سوائے اس کے اور کوئی صورت حق کے حاصل کرنے کی نہیں ہے۔

رائے کی آزادی پر ایک او ر چیز جس کو لوگ سند کہتے ہیں، کبھی مزاحمت پہنچاتی ہے۔ یہ اکثر ہوتا ہے کہ بحث کرنے والے اپنی اپنی تقریر کی تائید میں کسی مشہور شخص کے قول کی سند لاتے ہیں، حالانکہ کسی شخص کی سند پر اپنی رائے کو منحصر رکھنا خود آزادئی رائے کے بر خلاف چلنا ہے اگر ہم کسی کے قول کو صحیح اور سچ سمجھتے ہیں تو اس کے قول کو پیش کرنا کچھ مفید نہیں ہے۔ بلکہ ہم کو وہ دلیلیں پیش کرنی چاہئیں جن سے اس قول کو ہم نے صحیح مانا ہے۔ اگر سقراط و بقراط نے کوئی ایسی بات کہی ہے جو در حقیقت صحیح نہیں ہے تو ان کے کہنے سے صحیح نہیں ہو جانے کی اور اگر کسی جاہل نے کوئی صحیح بات کہی ہے تو و ہ اس لیے کہ کسی جاہل نے کہی ہے غلط نہیں ہو جائےگی۔ کیا عمدہ مسئلہ ہے جس پر ہر انسان کو عمل کرنا چاہئے، مگر افسوس کہ اس پر نہایت کم عمل ہوتا ہے اور وہ مسئلہ یہ ہے۔ فانظر الی ما قال ولا تنظر الی من قال، وللہ در من قال۔

مرد باید کہ گیرد اندر گوش
در نوشت است پند بر دیوار


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.