آشنا گوش سے اس گل کے سخن ہے کس کا

آشنا گوش سے اس گل کے سخن ہے کس کا
by حیدر علی آتش

آشنا گوش سے اس گل کے سخن ہے کس کا
کچھ زباں سے کہے کوئی یہ دہن ہے کس کا

پیشتر حشر سے ہوتی ہے قیامت برپا
جو چلن چلتے ہیں خوش قد یہ چلن ہے کس کا

دست قدرت نے بنایا ہے تجھے اے محبوب
ایسا ڈھالا ہوا سانچے میں بدن ہے کس کا

کس طرح تم سے نہ مانگیں تمہیں انصاف کرو
بوسہ لینے کا سزا وار دہن ہے کس کا

شادیٔ مرگ سے پھولا میں سمانے کا نہیں
گور کہتے ہیں کسے نام کفن ہے کس کا

دہن تنگ ہے موہوم یقیں ہے کس کو
کمر یار ہے معدوم یہ ظن ہے کس کا

مفسدے جو کہ ہوں اس چشم سیہ سے کم ہیں
فتنہ پردازی جسے کہتے ہیں فن ہے کس کا

ایک عالم کو ترے عشق میں سکتا ہوگا
صاف آئینہ سے شفاف بدن ہے کس کا

حسن سے دل تو لگا عشق کا بیمار تو ہو
پھر یہ عناب لب و سیب ذقن ہے کس کا

گلشن حسن سے بہتر کوئی گل زار نہیں
سنبل اس طرح کا پر پیچ و شکن ہے کس کا

باغ عالم کا ہر اک گل ہے خدا کی قدرت
باغباں کون ہے اس کا یہ چمن ہے کس کا

خاک میں اس کو ملاؤں اسے برباد کروں
جان کس کی ہے مری جان یہ تن ہے کس کا

سرو سا قد ہے نہیں مد نظر کا میرے
گل سا رخ کس کا ہے غنچہ سا دہن ہے کس کا

کیوں نہ بے ساختہ بندے ہوں دل و جاں سے نثار
قدرت اللہ کی بے ساختہ پن ہے کس کا

آج ہی چھوٹے جو چھٹتا یہ خرابہ کل ہو
ہم غریبوں کو ہے کیا غم یہ وطن ہے کس کا

یار کو تم سے محبت نہیں اے آتشؔ
خط میں القاب یہ پھر مشفق من ہے کس کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse