آغا حشر کاشمیری

آغا حشر کاشمیری (1938)
by محمد صادق ضیا
324510آغا حشر کاشمیری1938محمد صادق ضیا

بزم عالم میں وہ کیفیات رنگ و بو نہیں
رونق ایوان گیتی آج شاید تو نہیں
آہ کیا تو پر سکوں ہے قبر کی آغوش میں
چین کیونکر آ گیا اس محشر خاموش میں
سرمدی نغمات سے اب دل کو تڑپائے گا کون
اب ستارے آسماں سے توڑ کر لائے گا کون
مجلسی لعنت پر اب تنقید فرمائے گا کون
اور اسے رنگین پیرائے میں سمجھائے گا کون
آہ اب کس سے سنیں گے آتشیں نغمات ہم
آہ اب کس سے کہیں گے اپنے احساسات ہم
ہند کی دوشیزہ دیوی کو دیا سادہ لباس
تیرے ہی پر کیف نغموں نے بجھائی دل کی پیاس
مغربی تہذیب میں ڈوبا ہوا تھا ہر جواں
مشرقی اطوار سے بیزار تھا ہندوستاں
تو نے اپنے دل کی چنگاری سے بھڑکائی وہ آگ
نغمۂ مشرق سے دب کر رہ گیا مغرب کا راگ
ساز تیرا آتشیں آواز طوفانی تری
حشر تک یاد آئے گی وہ حشر سامانی تری


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).