آغوش تصور میں جب میں نے اسے مسکا

آغوش تصور میں جب میں نے اسے مسکا
by نظیر اکبر آبادی

آغوش تصور میں جب میں نے اسے مسکا
لب ہائے مبارک سے اک شور تھا "بس بس" کا

سو بار حریر اس کا مسکا نگہ گل سے
شبنم سے کب اے بلبل پیراہن گل مسکا

اس تن کو نہیں طاقت شبنم کے تلبس سے
اے دست ہوس اس پر تو قصد نہ کر مس کا

ملتی ہے پری آنکھیں اور حور جبیں سا ہے
ہے نقش جہاں یارو اس پائے مقدس کا

تر رکھیو سدا یارب تو اس مژۂ تر کو
ہم عطر لگاتے ہیں گرمی میں اسی خس کا

اس گریۂ خونیں کی دولت سے نظیرؔ اپنے
اب کلبۂ احزاں میں کل فرش ہے اطلس کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse