آفتاب نے شبم سے کیا کہا؟

آفتاب نے شبم سے کیا کہا؟
by ناصر نذیر فراق دہلوی
319515آفتاب نے شبم سے کیا کہا؟ناصر نذیر فراق دہلوی

آخر چمن سے نگہت گل کر گئی سفر
خانہ بدوش کو نہیں الفت وطن کے ساتھ

جب صبح کے وقت شبنم آفتاب کے سلام کے لئے حاضر ہوئی تو آفتاب نے کہا، کیوں ری ہرجائی، ہری چُگ تو رات بھر عالم سفلی کی سیر کرتی ہے، اور نئے نئے تماشے دیکھتی ہے، مگر کبھی اپنے پھوٹے منہ سے ہمیں کوئی قصہ نہیں سناتی۔

شبنم، ہاتھی پھرے گاؤں گاؤں، جس کا ہاتھی اس کا ناؤں۔ کہیں جاؤں، کہیں آؤں، کہلاتی آپ کی لونڈی ہوں۔ بھلا، مجھے یہ تاب و طاقت ہے کہ حضور نیچے کی دنیا کا حال پوچھیں اور میں اس کے بیان کرنے میں اغماض کروں؟ سنئے جہاں پناہ! رات یہ آپ کی کنیز سیر کرتے کرتے آگرہ جانکلی۔ اور نواب دارا جنگ آسماں کلاہ کے زنانہ محل میں داخل ہو گئی۔ یہ نواب جلال الدین اکبر شہنشاہ ہندوستان کے درباری امیر ہیں۔ نواب صاحب کی محل سرا میں ایک چمن لگا ہوا ہے۔ چمن میں قسم قسم کے چھوٹے بڑے درخت ہیں۔ مگر مجھے کیلے کی اُتّوکٹی ہوئی سوزنی پسند آئی۔ میں اس پر چپکے سے جا لیٹی۔ کوئی رات کے گیارہ بجے اس چمن کے پاس چار پانچ لونڈیوں نے اپنے اپنے پلنگ بچھا اس پر لیٹ گئیں۔ انسان کا قاعدہ ہے کہ بے بولے اس سے رہا نہیں جاتا۔ ان لونڈیوں میں جو بات چیت ہوئی، وہ بہت دلچسپ تھی۔

چنپا، سچ کہنا بوا شام برن اس بچی کو کیا ہوا تھا۔ ہائے میرے اللہ! گھڑی بھر میں بکس کر رہ گئی۔ کمبخت کھیلتی مالتی آغا مینا کی طرح باتیں ملکاتی اڑ گئی۔

شام برن، بہن نیک قدم! ذرا بوا چنپا کی باتیں سن رہی ہو کیا کہہ رہی ہیں۔ آٹے کے ساتھ گھن پسوانا چاہتی ہیں۔ کہیں جو کسی نے جالگایا کہ بڑی بیگم آپ کی صاحب زادی گل آرا بیگم کے مرنے کا حال شام برن چھوکری اس طرح کہہ رہی تھی تو بھلا بڑی بیگم میرا چونڈا بے مونڈے چھوڑیں گی؟

انجم، اجی چونڈا منڈا کر چھٹکارا ہو جائے تو سستے چھٹے۔ نواب صاحب کے کان میں پڑ گئی تو ناک چوٹی کترواکر تھوتھے تیروں سے اڑا دیں گے۔ بس اس ذکر کو چھوڑو۔ بڑوں نے کہا ہے کہ دیوار بھی کان رکھتی ہے۔

چنپا، اس وقت تو ہمارے چاروں طرف کوئی دیوار نہیں ہے۔ ہم تو محل کے بیچوں بیچ میں چمن کے پاس اپنے اپنے پلنگ پر لیٹے ہیں۔ بیگم صاحب اور نواب صاحب کوٹھے پر آرام کر رہے ہیں۔ نوکریں، چاکریں، ماما، اصیلیں ادھر ادھر ہیں۔ سننے والے ہوں نہ ہوں، ہمارے تمہارے فرشتے ہوں، مگر فرشتوں کا یہ دستور نہیں کہ ہماری تمہاری لگائی بجھائی کریں۔ اگر تم گل آرا بیگم کے مرنے کی حقیقت کہہ دوگی تو ہرج کیا ہے؟

شام برن، چنپاتو تو جھاڑ کا کانٹا بن کے لپٹ گئی۔ اری نادان اس بچی کا نام لینے سے میرا دل دھڑکتا ہے۔ سات برس کی ہوکے آٹھویں میں پڑی تھی، جو موت نے اس کی منڈیا مروڑ لی۔ ہائے اس ناشاد نامراد کا اس طرح جان دینا سارے شہر کو برا لگا۔ سنا ہے، جس وقت بادشاہ سلامت نے یہ خبر سنی تو بے اختیار رونے لگے اور فرمایا، افسوس کن ارمانوں اور منتوں سے دارا جنگ کے گھر میں یہ لڑکی پیدا ہوئی تھی۔ مگر کیا خبر تھی کہ وہ آناً فاناً چٹ پٹ ہو جائےگی۔ خیر تم کان لگا کر سنو۔ چیخ چیخ کر یہ قصہ میں نہیں کہوں گی۔

بات یہ تھی کہ ایک دن نواب صاحب ہوا دار میں سوار قلعہ سے گھر کو آ رہے تھے۔ بازار میں انہیں ایک پندرہ سولہ برس کا لڑکا ملا۔ اس نے سلام کر کے ترکی زبان میں کہا، میں طالب علم ہوں اور توران سے آپ کے ملک میں پڑھنے آیا ہوں، مگر میرے کھانے پینے کا بندوبست نہیں ہے۔ اگر آپ خدا راہ پر میرے کھانے کا انتظام کر دیں تو میری انتڑیاں آپ کو دعا دیں گی اور آپ کربڑا ثواب ملےگا۔ نواب صاحب خود تو رانی ہیں۔ اس لئے نواب صاحب کو اس لڑکے کی بات چیت بہت پسند آئی۔ اشارے سے کہا تم ہماری سواری کے ساتھ چلے آؤ۔ جب زنانی ڈیوڑھی کے پاس ٓئے تو فرمایا، لڑکے میاں تم ڈیوڑھی پر حاضر رہو۔ اور اندر آکر بڑی بیگم سے فرمایا، ایک تورانی طالب علم بہت کم عمر اور بڑا گیگلا ہے۔ میں اسے ساتھ لایا ہوں۔ اسے خاصہ کا کھانا بھجوادو۔ اور میں نے اس سے کہہ دیا ہے وہ روز ڈیوڑھی پر کھانا آ کر لے جایا کرےگا۔ تم خود اس اس مسافر بیکس کے کھانے کا خیال رکھنا۔ ان لونڈیوں اور پیر بخش دربان کے بھروسہ پر نہ چھوڑ دینا۔

بیگم نے کہا بہت اچھا۔ لڑکا آنے جانے اور کھانا لے جانے لگا اور اس معاملہ کو کوئی چھ مہینے گزر گئے۔ گل آرا بیگم کی عمر ہی کیا تھا۔ وہ کھیلتے کھیلتے ڈیوڑھی میں پیر بخش دربان کے پاس چلی جایا کرتی تھیں۔ دو چار بار ایسا بھی ہوا کہ گل آرا بیگم نے اس تورانی بچہ کو اور اس نے گل آرا بیگم کو دیکھا۔ آج آٹھ دن ہوئے۔ گل آرا بیگم نے ڈیوڑھی میں سے آکر بڑی بیگم سے کہا، اماں جان تورانی لڑکا کھڑا ہے۔ اس کا کھانا بھجوا دیجئے۔ بڑی بیگم کو صاحب زادی کا یہ کہنا اچھا نہ لگا۔ انہوں نے میرے ہاتھ لڑکے کے لئے کھانا بھجوایا اور مجھ سے کہا، اس لڑکے سے کہہ دینا تمہارا زنانی ڈیوڑھی پر آنا مناسب نہیں ہے۔ گھر بیٹھے تمہیں کھانا پہنچ جایا کرےگا۔ اب تم محل کے دروازہ پر نہ آنا۔ میں تورانی بچہ کو کھانا دے اور بیگم کی کہن اس سے کہہ کر چلی آئی، اور اس کا کھانا پیر بخش اس کے پاس مسجد میں پہنچانے لگا۔

پرسوں گل آرا بیگم نے بڑی بیگم سے کہا، اماں جان لڑکا جو کھانا لینے آیا کرتا تھا، کیا بات ہے کئی دن سے نہیں آیا۔ بڑی بیگم نے سیدھے سبھاؤ فرمایا۔ بیٹیٗ وہ لڑکا مر گیا۔ گل آرا نے کہا، امان جان آپ یوں ہی فرماتی ہیں، یا وہ لڑکا سچ مچ مر گیا۔ بڑی بیگم نے کہا، نہیں بیٹی میں یونہی نہیں کہتی ہوں۔ وہ لڑکا دراصل مر گیا۔ گل آرا بیگم نے پھر کوئی بات نہ دیکھی اور سیدھی اندر کے دالان میں جا اپنی چاندی کی پلنگڑی پر لیٹ گئی، اور دوشالہ اوڑھ لیا۔ بڑی بیگم نے فرمایا، خیرتو ہے۔ بیگی تم اس وقت پلنگڑی پر جاکر کیوں لیٹی ہو۔ گل آرا بیگم نے کہا اماں جان میں پلنگڑی پر مرنے کے لئے لیٹی ہوں۔ بڑی بیگم نے کہا، اوئی نوج دشمنوں بیری۔ سات قرآن درمیان تم کیا کہہ رہی ہو؟

گل آرا بیگم، اماں جان میں سچ کہتی ہوں، جب وہ لڑکا مر گیا تو میں جی کر کیا کروں گی۔ اس بات کے ساتھ ہی گل آرا نے ایک ہچکی لی اور اس کا دم آخر ہو گیا۔ بڑی بیگم نے ایک چیخ ماری اور ان کی چیخ کے ساتھ سارا محل اکٹھا ہو گیا۔ نواب صاحب دوڑے آئے۔ بادشاہی حکیم بلائے گئے، اور انہوں نے اس کو دیکھ بھال کر کہا، اس معصومہ کے دل کو کوئی صدمہ پہنچا، جس نے اس کی روح کو تحلیل کر دیا۔ نہ اسے سکتہ ہے نہ جمود ہے۔ یہ تو میت ہے۔ گورستان میں لے جائیے۔

محل میں کہرام مچ گیا۔ قیامت برپا ہو گئی۔ اس محبت کو خدا دنیا سے غارت کرے۔ بھلا کوئی سمجھدار ہوشیار ہو تو اس پر الزام بھی لگایا جائے۔ یہ تو منہ بند کلیوں کے گلے گھونٹتی ہے۔ اٹھتے پودوں کو تلوؤں سے مل ڈالتی ہے۔ نرم نرم کونپلوں کو توڑ مروڑ کر پھینک دیتی ہے۔ یہ ساری آفت کنگھی اور آئینہ نے ڈھائی ہے۔ بھلا کہئے جب مشاطۂ زلف میں عطرحنا ڈالے اور اس کو بنائے سنوارے تو قیس و فرہاد کا کیا قصور ہے؟ پتھر کا انسان ہو تو جیتا نہ بچے۔

مکھڑا یہ غضب زلفِ سیہ فام یہ کافر
کیا خاک جئے کوئی، شب ایسی سحر ایسی


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.