آنائی کے شیر انسان/باب 1

and also no source given! -jkb- (talk) 13:12, 22 October 2021 (UTC)


باب 1

ہاتھیوں کا قبرستان

مجھے یاد کہ جب مین نے ہاتھیوں کے قبرستان کے بارے پہلی بار سنا۔ اس وقت میں جوان تھا اور میرا فوج میں کمیشن سماٹرا کے ضلع جامبی میں سروے کی خاطر ہوا تھا۔ رہنما کی خاطر میں نے اپنے ایک پرانے جاننے والے افسر سے اس کے ملازم ہاشم کو اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ یہ افسر اب فارغ خطی یعنی ریٹائرمیٹ کو پہنچ چکا تھا۔ ایک شام میں ہاشم کے ساتھ اپنے برآمدے میں بیٹھا تھا اور خوب زور سے بارش ہو رہی تھی۔ دن بہت گرم تھا اور اب ہم بارش کی خنکی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ شام کے کھانے کے بعد میں باہر اکیلا بیٹھا تھا مگر طوفان کی شدت سے اسے گپ شپ کی خاطر بلا لیا۔

ماضی میں کسی جرم کی وجہ سے ہاشم کو فوج میں چند برس قلی کے طور پر جبری کام کرنا پڑا۔ جو افراد ہاشم کو جانتے ہیں، انھیں علم ہے کہ ہاشم اپنی حسن پرستی اور اپنے دیہات کے بارے کافی گپیں چھوڑتا ہے۔ تاہم اب ہاشم بوڑھا ہو گیا ہے اور اس کے چہرے پر جھریاں آ گئی ہیں۔ اس کے منہ میں محض تین دانت باقی ہیں اور ان کا واحد مقصد بیڑے کو اپنی جگہ رکھنا رہ گیا ہے۔ آج تک مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اس نے اپنی زندگی کیسے ان جنگلات میں گزاری ہوگی۔ اس سے عمر میں کافی چھوٹا ہونے کے باوجود ہاشم مجھ سے کہیں زیادہ جفا کش اور محنتی تھا۔ جنگلات میں اتنے برس گزارنے کے بعد اب ہاشم کے دل میں اپنے گاؤں لوٹنے کی کوئی خواہش نہیں رہی تھی۔ جیسا کہ مقامی افراد کہتے ہیں، اس نے دلدلوں کا پانی پی لیا تھا اور اب اسے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی۔ اس لیے جاوا واپس جانے کی بجائے وہ سماٹرا میں ہی مستقل بس گیا تھا۔ اس نے بے شمار آقاؤں کی خدمت کی تھی اور اس دوران جنگلی حیات کے بارے حیرت انگیز حد تک معلومات جمع کر لی تھیں۔ میری ملازمت میں آتے آتے اسے جنگل کے بارے ہر قسم کی مہارت حاصل ہو چکی تھی اور اس کی وفاداری اور خدمت گزاری مثالی تھی۔

اس طرح ہم شام کو برآمدے میں بیٹھے طوفان کو دیکھ رہے تھے کہ ہاشم نے پوچھا:

‘آقا کو علم ہے کہ آسمان پر چمکنے والی بجلی کیا چیز ہے؟‘

میرے پرانے استاد نے بتایا تھا کہ کبھی بھی مقامی افراد کی کسی بات پر مت ہنسنا اور ہاشم کی کسی بات پر ہنسنے کا تصور بھی نہیں کرنا۔ مسکرائے بغیر مقامی افراد کی بات توجہ سے سن لی جائے تو زیادہ تر مقامی افراد بہترین مخبر بن جاتے ہیں اور ان سے جنگل کے بارے اور مختلف باتوں میں بہترین رہنمائی مل سکتی ہے۔ اس لیے میں نے پورے خلوص سے نفی میں سر ہلایا اور اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔

ہاشم نے جواب دیا، ‘یہ روشنی تب پیدا ہوتی ہے جب ہاتھی اپنے بیرونی دانت کسی پتھر پر مارتے ہیں۔ اس طرح ہماری گفتگو کا رخ جنگل کے باسیوں کے جادو ٹونے اور ہاتھیوں سے منسلک دیومالائی داستانوں کو مڑ گیا۔ ہاشم نے مجھے بہت ساری باتیں بتائیں جن میں حقیقت اور داستانوی عناصر اس طرح گڈمڈ ہو گئے تھے کہ ان پر اعتبار کرنا ممکن نہیں تھا۔

اس طرح نصف داستان اور نصف حقیقت پر مبنی پہلی کہانی مجھے اس روز ہاشم نے سنائی۔ یہ کہانی ہاتھیوں کے قبرستان کے بارے تھی۔ مقامی لوگوں کی روایات کے مطابق جب ہاتھی مرنے کے قریب پہنچتا ہے تو وہ کسی تنہا جگہ کو تلاش کر کے اپنے بقیہ دن وہیں گزارتا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق یہ جگہ آتجہ اور لمپونگ ضلعوں کے درمیان ہے اور اس جگہ بہت گہری دلدل ہے اور یہ علاقہ انسانی دستبرد سے محفوظ ہے کہ یہاں آمد و رفت آسان نہیں۔ سینکڑوں میل دوری سے ہاتھیوں کی فطرت ان کی رہنمائی کر کے اس جگہ تک لے آتی ہے اور وہ گھنے جنگلات، پہاڑوں، کھائیوں اور نالوں سے گزر کر اس مقام تک پہنچتے ہیں۔

یہ روایات ہاتھیوں سے متعلق ہیں اور صرف انڈونیشیا تک محدود نہیں بلکہ استوائی افریقہ، کولمبو، ہندوستان اور دیگر مشرقی ممالک تک پھیلی ہوئی ہیں۔ مغربی دنیا نے بھی اس پر سنجیدگی سے توجہ دی ہے کہ نہ صرف یہ بات دل کو لگتی ہے بلکہ اس لیے بھی کہ اگر ایسا مقام مل گیا تو یہاں موجود ہاتھی دانت کا خزانہ انمول ہوگا۔

تاہم مقامی روایات میں تنبیہ کی جاتی ہے کہ ایسا کوئی بھی انسان جو اس جگہ کو تلاش کر کے اس کے پاس پہنچے گا تو اس پر بہت بڑی مصیبت نازل ہوگی۔ شاید یہ محض روایات ہی ہوں، مگر مجھے بخوبی یاد ہے کہ ہاشم نے مجھے بتایا کہ کنٹرولر ہیر بی بی وان ڈی بوش کے ساتھ جو ہوا۔ ان داستانوں سے متاثر ہو کر بوش نے 1850 میں ایسے ہی قبرستان کو تلاش کرنے کا سوچا۔ اس جگہ کے بارے کہا جاتا تھا کہ دریائے ومسی اور دریائے بباتن کے درمیان واقع ایک وسیع و عریض دلدلی قطعہ تھا۔ کئی ہفتوں کی محنت کے بعد یہ لوگ اس مقام پر پہنچے۔ لیکن اس جگہ پہنچ کر قلیوں نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ خوفزدہ قلیوں نے ‘ہنتو‘ یعنی آسیب زدہ اور ‘انگکر‘ یعنی مقدس کے الفاظ ادا کرنا شروع کر دیے۔ بوش نے اس پر توجہ نہیں دی اور اکیلا ہی روانہ ہو گیا۔ روانگی کے اگلے دن قلیوں نے دور سے گولیوں کی آواز سنی جو ایک طرح سے مدد کا اشارہ تھا۔ ایک قلی نے ہمت کر کے اپنے آقا کی تلاش کی۔ کچھ دن بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ اس کا آقا بھی تھا جو پوری طرح اندھا ہو چکا تھا۔ یہ بات سچ ہے کہ بوش کو کچھ عرصے سے آشوب چشم کا مرض لاحق تھا، مگر اس طرح مقامی افراد کو اپنی روایات کے سچے ہونے پر پورا یقین ہو گیا۔

اس کے علاوہ ایک مقامی زمیندار ہیمن کی کہانی بھی ہے جسے ہاتھی کا ڈھانچہ ایک فارم کے قریب سے ملا۔ وہ اس جگہ کو کاشتکاری کے لیے تیار کر رہا تھا۔ ہاتھی دانت جب باہر نکلے تو صاف لگ رہا تھا کہ کئی برسوں سے دفن تھے۔

اس روایت کو زندہ رکھنے کا ایک اور اہم عنصر یہ بھی ہے کہ قدرتی موت مرے ہوئے ہاتھی کی لاش یا ڈھانچہ بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ تاہم سارے جانور جب موت کی آمد کو محسوس کرتے ہیں تو جنگل میں تنہائی والی جگہ تلاش کرتے ہیں۔ ایسٹ انڈیز میں ہاتھیوں کے ڈھانچے ملنے کے کئی واقعات موجود ہیں۔ 1921 میں ضلع ہلدوانی سے ہاتھی کی ایک لاش ایک دلدلی علاقے سے ملی تھی۔ اس جانور پر کسی قسم کے زخم کا نشان نہیں تھا اور اس کی ٹانگیں نرم مٹی میں نصف گز دھنسی ہوئی تھیں۔ شاید ہاتھیوں کی تھکا دینے والی ہجرت کے دوران اسے موت نے اچانک آن لیا۔ پہلے پہل اس کی موت کی وجہ آرسینک کو گردانا گیا جو اس علاقے میں برطانوی حکام روہینی کے درختوں کو مارنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ تاہم یہ بات پتہ چل گئی کہ ہاتھی قدرتی طور پر اس درخت کو نہیں کھاتے۔ بڑھاپے کے علاوہ اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آ سکی۔

عجیب بات دیکھیے کہ دو مزید ہاتھیوں کے ساتھ یہی ہوا۔ پہلا واقعہ 1921 اور دوسرا 1925 میں ہوا۔ دونوں ہاتھیوں کا رخ اسی پہلے ہاتھی والے دلدلی علاقے کی جانب تھا۔ اس علاقے کے چاروں طرف گھنا جنگل تھا۔ مشہور ماہرین جیسا کہ ایچ جی چیمپین اور ای اے سمائتھیز نے ان واقعات کی تصدیق کی ہے۔ سب سے زیادہ سنسنی تب پیدا ہوئی جب زمینداری جنگلات میں خانہ بدوشوں نے ایک بوڑھی ہتھنی کی لاش دریافت کی۔ ہتھنی کے راستے پر پتوں اور گھاس کی غیر ہضم شدہ گیندیں سی پڑی ہوئی تھیں۔ بیچاری کے منہ میں کوئی بھی دانت نہیں تھا اس لیے خوراک کو چبا کے قابل نہیں رہی تھی۔ اس ہتھنی کے بارے بھی یہی طے ہوا کہ بڑھاپے کی وجہ سے مری ہے۔

ایک بار یہ خانہ بدوش ضلعی کمشنر مسٹر چیمپین کے پاس پہنچے جو اس طرح کی اطلاعات پر انعام دیتے تھے۔ ایک ہفتے بعد چیمپین ان لوگوں کو ساتھ لے کر مطلوبہ مقام پر پہنچے اور دیکھا کہ ہتھنی کی لاش سابقہ مقام سے بیس گز دور اس سمت ہٹ چکی تھی جہاں دلدل واقع تھی۔ اس کے آس پاس دواور ہاتھیوں کے پیروں کے نشانات بھی دکھائی دیے۔ صاف لگ رہا تھا کہ ان ہاتھیوں نے اس ہتھنی کی لاش کو دلدل کی سمت دھکیلا تھا۔

اس کے علاوہ اور بھی واقعات ایسے ہوئے کہ ہاتھیوں کے قبرستان کے بارے افواہیں زور پکڑتی رہیں۔ فطری بات ہے کہ ماہرینِ حیاتیات نے اپنے سائنسی طریقہ کار سے اس نظریے پر کافی اعتراضات اٹھائے۔ ظاہر ہے کہ جنگل کے سبھی جانور جب اپنی موت نزدیک دیکھتے ہیں تو تنہائی والی جگہ تلاش کرتے ہیں۔ چونکہ مرتے ہوئے جانور کو بہت پیاس لگتی ہے، اس لیے ان کا منتخب مقام عموماً پانی یا دلدل کے پاس ہوتا ہے۔

موت سے کچھ قبل جنگلی سور، لگڑبگڑ، اگوانا اور دیگر شکاری پرندے جمع ہو جاتے ہیں اور جانور کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ان کے بعد چیونٹیاں اور کیڑے آتے ہیں اور پھر چند ماہ میں مون سون اور گھاس پھونس وغیرہ یا تو لاش کی باقیات کو بہا کر دلدل میں لے جاتے ہیں یا پھر سبزے میں چھپ جاتے ہیں۔

اس طرح مرنے والے ہاتھیوں کے ہاتھی دانت کیوں نہیں ملتے؟ شاید بوڑھے ہاتھیوں کے دانت پہلے ہی گِھِس چکے ہوتے ہیں اور ان کی موت کے کچھ ہی عرصے میں بچے کھچے ہاتھی دانت صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہوں گے۔ ان دانتوں کی جڑ میں عصبی رگیں موجود ہیں جو مسوڑھے سے شروع ہوتے ہیں۔ جب مرنے کے بعد یہاں گیسیں پیدا ہوتی ہیں تو وہ ان دانتوں کو باہر نکال دیتی ہیں۔

مردہ ہتھنی کو زندہ ہاتھیوں کی جانب سے دلدل کی جانب بیس گز دھکیلے جانے کی بھی عقلی دلیل موجود ہے۔ چونکہ ہاتھیوں کی عمر بہت طویل ہوتی ہے، اس لیے انہیں موت کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ اس لیے جب انہیں کسی جگہ مردہ ہاتھی دکھائی دیتا ہے تو وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ ہاتھی بیمار ہے اور وہ اسے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ہاتھی نہیں اٹھتا تو پھر وہ اسے دھکیل کر پانی کی طرف لے جاتے ہیں۔ جب گلنے سڑنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی گیسیں اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں کہ مردہ جانور کا پیٹ پھٹ جاتا ہے تو اس کے مددگار حیران و پریشان ہو کر بھاگ جاتے ہیں۔

تاہم، جو بھی ہو، یہ نظریہ مقامی لوگوں کے ذہنوں میں بہت گہرائیوں تک پایا جاتا ہے اور وہ واقعات کی بنا پر پورا اعتقاد رکھتے ہیں۔ ایک بار میں اس سے کافی متاثر تھا اور اس بارے ہر قسم کی معلومات جمع کرنے لگ گیا تھا۔ ایک بار میں ہاتھیوں کے قبرستان کے بہت قریب بھی پہنچ گیا تھا۔ اس کہانی کا تعلق ‘سی جاہت‘ سے ہے، جسے ‘عذاب‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ بہت بڑا نر ہاتھی تھا جس نے کئی دہائیوں تک بہت بڑے علاقے پر اپنی دہشت قائم رکھی اور اسی وجہ سے مارا گیا۔

ہماری یہ عادت تھی کہ جب ہم کسی جانور کا پیچھا کرتے تو اس کی کسی خاصیت کی وجہ سے اسے ایک نام دے دیتے تاکہ اس نسل کے دوسرے جانوروں سے اسے ممیز کر سکیں۔ اس طرح اس کے بارے بات کرنا آسان ہو جاتا تھا۔ مجھے اس ہاتھی جاہت کے بارے پہلی بار جب پتہ چلا تو میں اندراگیری کے علاقے میں اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ قیام پذیر تھا جو یہاں بہت بڑی تیل والی کمپنی کے لیے تیل کی تلاش کے لیے کنویں کھودنے کا کام کر رہا تھا۔ جب مقامی لوگوں نے مجھے داستانیں سنائیں تو پتہ چلا کہ یہ ہاتھی جناتی قد کاٹھ کا ہے۔ اس دور میں جاہت ہاتھی کے بارے کہانیاں دریا کے دونوں کنارے پر کئی برسوں سے پھیلی ہوئی تھیں۔

عام طور پر ہاتھی موسم کے ساتھ ہجرت کرتے ہیں۔ برسات میں یہ اونچے علاقے اور پہاڑی ڈھلوانوں پر رہتے ہیں۔ خشک مون سون میں ان کے پینے اور نہانے کے تالاب خشک ہو جاتے ہیں اور دریا کا بہاؤ تنگ ہو جاتا ہے اور ہاتھیوں کا رخ دلدلوں کی جانب ہو جاتا ہے جہاں وہ ہر سال جاتے ہیں۔ پھر جب پہلی بارش ہوتی ہے تو نشیبی علاقوں میں سیلاب آ جاتا ہے اور ہاتھیوں کے جھنڈ واپس اونچے پہاڑی جنگلات کو لوٹ جاتے ہیں۔

ان ہاتھیوں کے راستے عموماً مقامی کمپونگ اور امبولان (عارضی قیام گاہیں) کے باغات اور کھیتوں سے ہو کر جاتے ہیں۔ ہاتھیوں کو پڈی یعنی کھڑے چاول، پیسانگ یعنی کیلے اور ڈڈاپ یعنی گھنے سایہ دار درخت بہت پسند ہوتے ہیں اور ہر بار جب ہاتھی یہاں سے گزرتے ہیں تو کھیت مکمل طور پر برباد ہو جاتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ جنگلی ہاتھیوں کو اگر انسانی موجودگی کا شبہ بھی ہو جائے تو وہ کنی کترا جاتے ہیں۔ جنگل کے باشندے رات کو کھیتوں کی چوکیداری اور شور کر کے ان ہاتھیوں کو بھگا سکتے ہیں۔ تاہم ہاتھی کبھی کبھار ہی نمودار ہوتے ہیں اور کھیتوں پر نگرانی کا کام بھی اسی حساب سے بے توجہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ کھیتوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو مقامی افراد کا خاصا ہے۔ جنگلی سور اور ہرنوں سے بچانے کے لیے کھیتوں کے گرد باڑ لگائی جاتی ہے لیکن ایسی باڑیں ہاتھیوں کو نہیں روک سکتیں جو انہیں روند کر نکل جاتے ہیں۔ مقامی آبادی کی یہ لاپرواہی ناقابلِ فہم ہے کیونکہ ہاتھیوں کے غول کی آمد کا کئی دن قبل پتہ چل جاتا ہے کہ ہجرت کے دوران ہاتھی بہت شور کرتے ہیں۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، انسانی موجودگی کا علم ہوتے ہی ہاتھی راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض کھیت ہاتھیوں کی دستبرد سے بچ جاتے ہیں تو بعض کھیت برباد ہو جاتے ہیں۔ ایک بار میں وہاں تھا تو میں نے تفتیش کی اور پتہ چلا کہ جن کھیتوں پر چوکیداروں کے جھونپڑے بنے ہوئے تھے، وہ تباہی سے بچ گئے تھے۔ مغربی مون سون میں جب ہوا مغرب یا جنوب مغرب سے چل رہی ہو تو جنگل کے مشرقی کنارے سے نکلنے والے ہاتھیوں نے ہمیشہ ان کھیتوں کو چھوڑ دیا جن کے مغربی جانب چوکیدار جھونپڑے بنے ہوتے تھے۔ انسانی بو سے انہیں اتنی الجھن ہوتی ہے کہ انہوں نے فوراً ان باغوں کا رخ کیا جہاں انہیں انسانی بو نہیں آ رہی تھی۔

سی جاہت کا غول کئی برسوں سے بدنام تھا کہ انہوں نے کھیتوں میں بہت تباہی مچائی تھی۔ یہاں کے ایک بوڑھے مقامی نڈر شکاری نے اپنی قدیم مزل لوڈر سے ایک بار اپنی جوانی میں اس دیو کا سامنا کیا تھا۔ یہ ان چند شکاریوں میں سے ایک تھا جو رات کے وقت ہاتھیوں کا شکار کرتے تھے اور اکثر کامیاب لوٹتے تھے۔ اُس موقع پر یہ شکاری ایک بداک یعنی گینڈے کا شکار کرنا چاہتا تھا۔ اس نے انتہائی دور کے ایک پہاڑی جنگل کی دلدل کا رخ کیا اور وہاں رات ایک بڑے درخت پر گزارنے پر مجبور ہو گیا۔ یہ درخت جنگل میں گھاس کے ایک قطعے کے پاس اگا ہوا تھا۔ چند دن قبل اس نے دور سے ہاتھیوں کی ہجرت کا شور سنا تھا اور اس رات یہ غول عین اسی قطعے کے پاس پہنچ گیا۔ پورا چاند نکلا ہوا تھا اور اس کی چاندنی سے پورے جنگل پر مسحور کن کیفیت طاری تھی اور اس کے چاروں طرف گھنا اور تاریک جنگل تھا۔

یہ شکاری آج بھی اس رات کے بارے بات کرتے ہوئے خوف اور پچھتاوے کی کیفیت اور بھرائی ہوئی آواز میں بات کرتا ہے۔ اس کے مطابق یہ غول اس قطعے پر جمع ہوا جیسے ایک دوسرے کو خوش آمدید کہہ رہے ہوں۔ ہاتھی اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر سونڈ بلند کر کے چنگھاڑتے رہے اور ان کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ یہ منظر انتہائی خوفناک ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی تھا۔ اس شکاری پر دہشت طاری ہوئی کہ جیسے پراسرار قوتیں یہاں موجود ہوں۔ اس نے اپنی بقیہ رات اللہ سے اپنے بچاؤ کی دعا مانگتے گزاری۔ اس غول کا سردار بہت بڑا سی جاہت تھا جو اس وقت اپنے جوبن پر تھا۔

یہ کہانی ناقابل یقین تھی، مگر ہم پھر بھی اس پر نہیں ہنسے کیونکہ جنگلوں کے بارے کون کہہ سکتا ہے کہ وہاں کیا ہوتا ہے اور کیا نہیں۔

جاہت کو اپنا غول لے کر باغات اور کھیتوں سے گزرنے اور وہاں تباہی مچانے کا خاص شوق تھا۔ مقامی افراد اس سے دہشت زدہ رہتے تھے اور اس کی شہرت یورپیوں تک پہنچ گئی جو اندراگیری کے علاقے میں آئے۔ ربڑ کی کاشت کرنے والے ایک بندے کی کہانی بہت مشہور ہے جو اس علاقے میں سروے کی نیت سے آیا۔ یہ وہ وقت تھا جب اس علاقے میں آباد چند یورپیوں تک رابطے کو ممکن بنانے کی خاطر ٹیلیفون کے کھمبے وادیوں، کھائیوں اور جنگلوں سے گزارے جا رہے تھے۔ ان کھمبوں کو تباہ کرنا جنگلی جانوروں کے لیے بہت آسان تھا۔ ایک بار ایک لائن سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ موقعے پر فورمین کو بھیجا گیا تاکہ وہ خرابی کے مقام کو تلاش کرے۔ جلد ہی پتہ چل گیا کہ ہاتھیوں کے غول نے کئی کھمبے گرا دیے ہیں۔ نر ہاتھی کے پیروں کے جناتی حجم سے صاف پتہ چلتا تھا کہ سی جاہت نے ہی یہ گڑبڑ کی ہے۔

فورمین نے وقت ضائع کیے بنا نئے کھمبے تیار کیے اور فون کی لائن بحال کرنے کا کام شروع کر دیا۔ ساتھ ہی اس نے چند آدمی پیچھے بھیجے تاکہ خاردار تار لائی جا سکے۔ اس کا ارادہ تھا کہ کھمبوں کو بچانے کے لیے ان کے گرد اوپر سے نیچے تک خاردار تار لپیٹ دی جائے۔ تاہم فورمین کی مایوسی دیکھیے کہ جلد ہی کھمبے پھر گرا دیے گئے۔ شاید خاردار تار کی وجہ سے ہاتھیوں کو اپنے جسم کو کھمبوں سے رگڑنے میں مزہ آتا ہوگا۔ فورمین نے جا کر دیکھا تو موقع پر نئے کھمبے پھر ٹوٹے پڑے تھے۔

جاہت کی بدمعاشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اور اس کی بزدلی کے ساتھ ساتھ اس کی طاقت بھی بے پناہ تھی۔ تاہم جب میں نے پہلی بار اس کے بارے سنا تو اس کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ اب اس کی بزرگی کا شہرہ تھا اور غول کے نوجوان اور طاقتور نر نے اسے مار کر غول سے نکال دیا تھا۔ شاید اس نے کچھ عرصہ غول کے ساتھ چھپ چھپا کر گزارا ہوگا کہ شاید کوئی مادہ اس کا ساتھ دینے کو غول سے الگ ہو جائے۔ مگر اس میں ناکامی کے بعد اس کاغصہ اپنی انتہا کو چھونے لگا اور تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہو گیا۔ کھیت کھلیان اس کے غصے کا شکار ہونے لگے۔ اس نے مقامی لوگوں کے جھونپڑوں کو بھی نہیں بخشا۔ جونہی اس کی آمد کا علم ہوتا یا تاریک راتوں میں اس کی آواز دور سے آتی سنائی دیتی تو لوگ انتہائی عجلت میں فرار کے لیے تیار ہو جاتے مبادا کہ ہاتھی انہی کی طرف آ رہا ہو۔

طویل عرصے تک جاری رہنے والی خشک مون سون کے بعد سی جاہت کو ایک ہتھنی اور بچے کے ساتھ پہاڑی علاقے میں دیکھا گیا جو اس نے کسی طرح غول سے نکال لیے تھے۔ اس بار وہ پہلے سے کہیں زیادہ محتاط تھا اور ماضی میں اگر اس کی آمد کی اطلاع زوردار چنگھاڑ سے ہوتی تھی تو اس بار وہ انتہائی خاموشی سے حرکت کرتا اور اس کی آمد و رفت کا اندازہ اس کے نشانِ قدم سے ہوتا۔ ان نشانات کو دیکھنے والا فوراً ہی نزدیکی آبادی کا رخ کرتا۔

تیل کمپنی والے میرے دوست کو اس کی کمپنی کی طرف سے اس ہاتھی کے بارے خاص احتیاط کا کہا گیا تھا مگر اس نے زیادہ توجہ نہیں دی کہ جنگلی ہاتھیوں کے بارے اس کی معلومات انتہائی محدود تھیں۔ اس نے اس چھوٹے غول کا یہی اندازہ لگایا کہ وہ بڑے غول سے بچھڑ گیا ہوگا۔ تاہم اسے جلد ہی پتہ چل گیا کہ یہ چھوٹا جھنڈ زیادہ دور نہیں۔ اس طرح کی صورتحال کا اندازہ عام جنگلی جانوروں کا معمول کی چراگاہوں سے اچانک غائب ہو جانے سے لگایا جا سکتا ہے۔

ہرن ہاتھیوں کی جانب مائل ہوتے ہیں کہ ہاتھی اونچی شاخوں اور درختوں کو گراتے ہیں جن سے ہرنوں کو کافی خوراک مل جاتی ہے۔ ہاتھیوں کو ہرنوں کی موجودگی اس لیے پسند ہے کہ یہ جانور بہت محتاط رہتے ہیں اور کسی بھی خطرے کا پیشگی اندازہ ہو جاتا ہے۔

تاہم سور کی مانند ہرن بھی موسم کے ساتھ ہجرت نہیں کرتے اور ان کی چراگاہیں مخصوص ہوتی ہیں۔ ہرن ان جگہوں کو محض انتہائی شدید خشک سالی کے موسم میں چھوڑتے ہیں یا پھر جب شیر ان کے درپے ہو جائے۔ سو، اگر ہرنوں کو ہاتھیوں کا ساتھ مل جائے تو وہ ان کے ساتھ مل جاتے ہیں اور جب تک ہاتھی وہ علاقہ نہ چھوڑ دیں، ان کا ساتھ جاری رہتا ہے۔ جب ہاتھی بہت دور نکل جائیں تو پھر یہ ہرن ان ہاتھیوں کے بنائے ہوئے سرنگ نما راستوں پر واپس لوٹ آتے ہیں جو گھنی گھاس میں بنے ہوتے ہیں۔

شیروں کو بھی ان سرنگوں کا علم ہوتا ہے اور وہ یہاں گھات لگاتے ہیں۔ بہت مرتبہ میں نے ایسی سرنگوں کے پاس ہڈیوں کے ڈھیر دیکھے ہیں۔ جنگل سے جہاں بہت کچھ ملتا ہے، وہاں جنگل بہت کچھ واپس بھی لیتا ہے۔ جہاں جنگل سے تحفظ بھی ملتا ہے تو وہاں کئی جگہ اس سے مہلک خطرہ بھی ہوتا ہے۔

جب ہرن والا ایسا ہی ایک قطعہ میرے دوست کو خالی ملا تو اسے اندازہ ہو گیا کہ کوئی گڑبڑ ہے۔ پھر اسے جاہت کے بڑے بڑے قدموں کے نشانات سے چھوٹے غول کی آمد کا اندازہ ہوا۔ اب اس کی بے فکری کی جگہ تجسس نے لے لی۔ جاہت کے بارے کہانیوں کی وجہ سے ہم سب پر شکار کا بھوت سوار ہو گیا۔ میرے دوست نے چند دن کی چھٹی لے لی اور دو مقامی شکاریوں کےساتھ ہاتھیوں کے پیچھے نکل کھڑا ہوا۔ دو دن بعد وہ ایسی جگہ پہنچا جہاں سے یہ ہاتھی گزرے تھے۔ نیم دلدلی علاقے میں ہاتھیوں کے بڑے پیروں سے سوراخ بنے ہوئے تھے۔ ان کے حجم سے اسے پورا یقین ہو گیا کہ ان کے آگے سی جاہت ہاتھی ہی ہے۔

دوپہر کو اسے ہاتھی دکھائی دیے۔ جاہت اور اس کی مادہ بلوکر نامی درختوں کے پاس کھڑے تھے جو ایک کھلیان کے کنارے تھا۔ دونوں اپنی سونڈیں نیم دائرے کی صورت میں ہلاتے ہوئے اپنا پیٹ بھر رہے تھے۔ چھوٹا ہاتھی اپنی لمبی ٹانگوں پر بھاگتے ہوئے کبھی اپنی ماں کی دم پکڑتا اور کبھی شور مچاتا۔ ہوا میرے دوست کے حق میں چل رہی تھی اور اس نے تقریباً 50 گز سے گولی چلائی۔ یہ گولی جاہت کے کان کے پاس لگی اور ہاتھی فوراً ایسے لپکا جیسے کوئی تودہ حرکت کر رہا ہو۔ اس کا رخ سیدھا میرے دوست کی جانب تھا۔ میرے دوست نے فوراً فرار کا راستہ اختیار کیا جب کہ مقامی شکاری کبھی کے چمپت ہو گئے تھے۔ تاہم جاہت نے جیسے اچانک حملہ شروع کیا تھا، ویسے ہی اچانک واپس مڑا اور مادہ اور بچے کے ساتھ اچانک گم ہو گیا۔ انہیں جنگل میں ہاتھیوں کے گزرنے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں اور پھر خاموشی چھا گئی۔

میرے دوست نے اپنی رائفل بھری اور جھاڑ جھنکار سے گزر کر ہاتھیوں کے پیچھے روانہ ہوا۔ جب وہ ہاتھیوں کی گزرگاہ تک پہنچا تو پھر چلنا آسان ہو گیا۔ راستہ سیدھا جنگل کو جا رہا تھا۔ ادھر ادھر جھاڑیوں پر خون کے نشانات بھی تھے۔ میرا دوست انتہائی احتیاط سے آگے بڑھتا رہا مبادا کہ زخمی ہاتھی شاید راستے میں کہیں گر گیا ہو۔ مگر ہاتھیوں کے فرار کے نشانات چالیس یا پچاس گز پر جنگل میں غائب ہو رہے تھے۔ تاہم میرے دوست کو ان کی کوئی آواز نہیں سنائی دی۔ شاید وہ بغیر کوئی آواز نکالے غائب ہو گئے تھے۔

میرے دوست نے زخمی ہاتھی کا پیچھا کئی گھنٹوں تک جاری رکھا۔ امید تھی کہ زخم کی وجہ سے شاید ہاتھی بے بس ہو کر کہیں گر جائے۔ تعاقب کے دوران جنگل مزید گھنا ہوتا گیا۔ آخر میں اسے تعاقب چھوڑ کر واپس لوٹنا پڑا۔ اس کے ساتھیوں نے جنگل کے کنارے اس کا انتظار کیا تھا۔ چونکہ اندھیرا چھا رہا تھا، اس لیے انہوں نے وہیں سونے کا فیصلہ کر لیا۔

اگلی صبح پو پھٹنے سے قبل وہ بیدار ہوئے اور زخمی ہاتھی کے نشانات تلاش کرنے لگے اور سارا دن ان کی تلاش جاری رہی مگر ناکام رہے۔ اس سے اگلے دن میرے دوست نے تعاقب ختم کر دیا۔ اس نے پانچ دن کی چھٹی کی تھی اور اب گھر واپسی پر دو دن مزید لگتے۔ اس نے فوراً گھر کا رخ کیا۔ واپسی پر اس نے مجھے خط لکھا اور اپنے بہترین ہرکارے کے ذریعے بھیجا۔ شکار کا یہ سب سے اہم اصول ہے کہ زخمی جانور کو کبھی بھی تکلیف کی حالت میں نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مگر میرے دوست نے اس اصول کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس نے زخمی جانور کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ اب میرا دوست چاہتا تھا کہ میں اس ہاتھی کو تلاش کر کے اس کو تکلیف سے نجات دلاؤں۔ وہ اپنے کام سے مزید چھٹی نہیں کر سکتا تھا۔

ہر ممکن عجلت سے میں اپنے دوست کے پاس جا پہنچا اور رات اس کے پاس گزاری اور معلومات جمع کیں۔ اس نے مجھے اس علاقے کے بارے ہر ممکن معلومات دیں۔ اگلی صبح میں ہاشم اور دو مقامی مزدوروں کے ساتھ جاہت کے علاقے کو روانہ ہوا۔ اپنے دوست کی معلومات کی روشنی میں مجھے اندازہ تھا کہ ہاتھی کس سمت گئے ہوں گے اور کہاں ان سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ اڑھائی دن تک ہم اس علاقے میں گھومتے رہے جو کافی دشوار گزار تھا اور ہمیں آرام کرنے کا موقع کم ہی ملتا تھا۔ پہاڑی علاقہ سو میل سے زیادہ علاقے پر پھیلا ہوا تھا اور آخرکار برسین کے سلسلے میں جا ملتا تھا۔ سارا علاقہ گھنے جنگلات اور دلدلوں سے بھرا ہوا تھا اور کہیں کہیں گھاس کے قطعے بھی آ جاتے تھے۔ انسانی آبادی بہت کم اور دور دراز تھی۔ ہمارے چاروں طرف کئی کئی روز کے سفر پر سارا جنگل ہی انسانی دستبرد سے محفوظ تھا۔

بار بار ہمیں تیز پرانگ سے راستہ بنانا پڑتا۔ رات کو ہم پانی کے کنارے کہیں بھی رک جاتے اور بعجلت چاول پکا کر کھاتے اور رات بھڑکتے الاؤ کے سامنے سو کر گزارتے۔ اس کا فائدہ یہ تھا کہ ایک تو ہمیں حرارت ملتی رہتی، دوسرا شیر اور مچھر ہم سے دور رہتے۔ رات ہونے سے قبل ہی ہم خشک لکڑیوں کا ڈھیر جمع کر لیتے تھے اور رات کو باری باری جاگ کر پہرے داری کرتے تاکہ آگ جلتی رہے۔

رات کو آگ کی روشنی میں صاف شفاف پہاڑی ندی پر نہا کر یا ہاتھ منہ دھو کر خوشبودار اور نرم ٹہنیوں کے بستر پر جب انسان لیٹے تو بہت فرحت محسوس ہوتی تھی اور الاؤ سے اٹھتی چنگاریاں خوبصورت دکھائی دیتی تھیں۔ آس پاس کے جنگل سے جانوروں کی آوازیں لطف دوبالا کر دیتیں۔ تیسرے دن دوپہر کے وقت ہمیں پہلی بار سی جاہت کے پیروں کے نشان ملے۔ یہ نشان ایک گھاس کے قطعے میں دکھائی دیے جو دلدلی جنگل میں واقع تھا اور اس جگہ ہاتھیوں کے جسم کی بو واضح تھی۔ اس کے علاوہ تقریباً چار روز پرانا فضلہ بھی دکھائی دیا۔ ہاشم نے لپک کر اسے اپنے چاقو سے کاٹا اور پھر میری طرف دیکھ کر بولا، ‘یہی ہے، تھوان!‘

ہاشم نے یہ نتیجہ اس بات سے اخذ کیا کہ چونکہ ہاتھی کے گوبر میں نیم ہضم شدہ گھاس اور پتے موجود تھے، اس کا مطلب یہ تھا کہ جاہت اتنا بیمار ہے کہ چبا نہیں سکتا۔ میں نے سینے والی جیب سے اپنے دوست کی دی ہوئی تفصیلات نکال کر دیکھیں۔ جاہت اپنے اصل راستے سے کچھ ہٹ گیا تھا اور اس کا رخ چار روز کے فاصلے پر واقع دلدل کی طرف تھا جس کے دونوں جانب بلند پہاڑ تھے۔

میں نے ہاشم اور دونوں مقامیوں کو یہ نقشہ دکھایا۔ چونکہ جنگل بہت گھنا اور بنا پگڈنڈیوں کے ہوتا ہے، اس لیے یورپیوں کی نسبت مقامی افراد اپنا راستہ کہیں زیادہ آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں۔ اگر ہم اس دلدل کی جانب سیدھا رخ اختیار کرتے تو ہم ہاتھیوں سے پہلے وہاں پہنچ سکتے تھے کیونکہ بیمار یا زخمی ہاتھی اپنی تکلیف کے سبب آسان ترین راستہ چنتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر اس کے راستے میں کھائی آ جائے تو وہ کنارے کنارے چلتا جائے گا جب تک کہ کوئی ایسا مقام نہ آ جائے کہ آسانی سے کھائی عبور کر لی جائے۔

اس کامیابی سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی اور ہم نے اسی جانب کا رخ کیا۔ اس رات رکنے کے بعد اور الاؤ روشن کرنے سے قبل ایک مقامی بندہ اونچے درخت پر چڑھا تاکہ ہاتھیوں کی آواز سن سکے یا انہیں دیکھ سکے۔ جب اسے کامیابی نہ ہوئی تو پھر ہم نے آگ جلائی اور کھانا تیار کیا۔ چونکہ میں کافی پرجوش تھا، اس لیے لیٹنے کی بجائے کچھ دیر کے لیے میں آگ کے پاس بیٹھ گیا۔ اچانک ہی پھر مجھے ہاتھیوں کے قبرستان والی داستانیں یاد آ گئیں۔ میں ایک ایسے ہاتھی کا پیچھا کر رہا تھا جو شدید زخمی اور قریب المرگ تھا۔ اگر ان داستانوں میں ذرا بھر بھی سچ ہو اور جاہت کا راستہ بھی ایسی ہی دلدل کو جا رہا تھا کہ جوش کے مارے مجھ پر کپکی طاری ہو گئی۔ کیا پتہ میں اس کا پیچھا کرتے ہوئے ایسی ہی جگہ پہنچ جاؤں؟

توقع سے بھی جلد ہمیں اس کا جواب مل گیا۔ اگلے دن دوپہر سے قبل ہم سی جاہت کے نشانات سے دوسری مرتبہ گزرے۔ ہم ایک بہت تنگ اور گہری کھائی میں اترے اور ہمیں وہاں تین ہاتھیوں کے نشانات دکھائی دیے۔ جگہ جگہ ہمیں نشانات دکھائی دیتے رہے کہ زخمی ہاتھی بار بار اپنے گھٹنوں کے بل گرتا اور آرام کرتا رہا تھا۔ یہ نشانات تازہ تھے اور ہاتھیوں کے جسم کی بو صاف محسوس ہو رہی تھی۔

اچانک ہاشم نے مجھے ایک عجیب سی چیز دکھائی۔ مزید 900 گز آگے جا کر کھائی اور بھی تنگ ہو جاتی تھی۔ اس کے درمیان ہمیں چھوٹے ہاتھی کے اور کناروں پر بڑے ہاتھیوں کے نشانات دکھائی دیے۔ ہاشم نے عجیب تیقن سے مجھے بتایا: ‘وفادار مادہ اپنے نر کو سہارا دے رہی تھی۔‘ ہتھنی اپنی بائیں جانب جھک کر جاہت کے دائیں پہلو کو سہارا دیے جا رہی تھی۔ کھائی کے کناروں پر چلتے ہوئے دونوں ایک دوسرے سے مل کر چل رہے تھے۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سن کر میرے ذہن میں کیا خیالات آئے ہوں گے۔ تاہم جلد ہی مجھے ہاتھیوں کے قبرستان کا خیال یاد نہ رہا اور بس یہی دھن سوار تھی کہ جلد از جلد اس ہاتھی کو اس کی تکلیف سے نجات دلائی جائے۔ اس کی بیوی اس کی مدد کر رہی تھی۔

اگلی صبح ہم تازہ گوبر سے گزرے اور جریانِ خون کے نشانات دکھائی دیے جو چند گھنٹے پرانے تھے۔ میں نے فوراً کسی قسم کے اونچے مقام کی تلاش کی اور ایک بہت پرانا انجیر کا درخت دکھائی دیا۔ میں نے اپنے مقامی ساتھیوں کو وہیں رک کر ہماری واپسی کا انتظار کرنے کو کہا۔ پھر ہر ممکن فالتو سامان ان کے پاس رکھا اور ہاشم کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ ہم ہرممکن عجلت سے آگے بڑھتے رہے اور محتاط بھی رہے کہ کہیں بھی ہاتھیوں کا سامنا ہو سکتا تھا۔ چونکہ جاہت قریب المرگ تھا، اس لیے ممکن تھا کہ ہماری بو پاتے ہی ہم پر چڑھ دوڑتا۔ جنگل میں زخمی جانور سے زیادہ خطرناک کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جنگل بہت گھنا تھا اور اگر جاہت حملہ کرتا تو اس سے بچاؤ بہت مشکل ہو جاتا۔

ہمیں پیچھا کرتے ہوئے تین گھنٹے گزرے تھے کہ اچانک گھنے درختوں میں سے سورج چمکا۔ ہاشم اور میرے ذہن میں بیک وقت یہی خیال آیا کہ آگے کھلے قطعے میں ہم ہاتھی کو پا لیں گے۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور ہاشم نے سر ہلا کر کہا: ‘تھوان، ہم کامیاب ہو گئے!‘

ہم آہستگی سے جنگل کے کنارے کو گئے اور ایک جگہ کھڑے ہو کر ہم نے اس قطعے کا جائزہ لیا۔ ہاشم کا ہاتھ میرے بازو پر آیا۔ سامنے کچھ فاصلے پر تینوں ہاتھی کھڑے تھے۔ انہوں نے اس اُتھلے پانی کے تالاب کو تقریباً عبور کر لیا تھا۔ چونکہ جگہ جگہ اگی ہوئی نباتات کی وجہ ہمیں ہاتھی اچھی طرح دکھائی نہیں دے رہے تھے، ہاشم ایک درخت پر چڑھا تاکہ ایسا راستہ تلاش کر سکے جو ہمیں جلد از جلد ہاتھیوں کے آگے پہنچا دیتا۔ تاہم یہ کام بہت مشکل تھا کہ تالاب بہت زیادہ چوڑا تو نہیں تھا، مگر لمبائی خاصی تھی۔ اگر ہم جنگل کے کنارے سے ہو کر آگے بڑھتے تو ہاتھی تالاب عبور کر کے ہم سے پہلے آگے بڑھ جاتے۔ ہم نے فوراً ہوا کا رخ دیکھا جو سیدھا ہاتھیوں سے ہماری جانب آ رہی تھی۔ سو ہم نے گفتگو میں وقت ضائع کیے بنا تالاب کو عبور کرنا شروع کر دیا۔

گدلا اور بدبودار پانی ہماری پنڈلیوں سے ہوتا ہوا ہماری کمر تک آتا گیا۔ جان بوجھ کر ہم نے ہاتھیوں کی گزرگاہ سے تھوڑا دور عبور کیا کہ ہاتھیوں کے پیروں سے بننے والے گڑھے بہت مشکل پیدا کرتے اور ہم گردن تک پانی میں گم ہو جاتے اور تھکن الگ ہوتی۔ دلدلی تہہ میں ہمارے پیر ٹخنوں تک دھنس رہے تھے۔ ہم پانی سے باہر نہیں نکل سکتے تھے، سو ہم نے اور بھی تیزی اور محنت سے پیش قدمی جاری رکھی۔ سورج سوا نیزے پر تھا اور گرمی شدید تر۔ جسم کا ہر مسام پسینہ اگل رہا تھا۔ پانی میں اگے جنگلی پودوں کے تیز پتوں سے ہمارے بازوؤں اور ہاشم کی ننگی ٹانگوں پر خراشیں بن رہی تھیں۔ جلد ہی ہمارا سانس پھول گیا اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے مٹی کے ہزاروں ہاتھ ہوں جو ہمیں روکنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ بار بار تھک کر ہم رک جاتے یا پھر اگر کوئی آبی پرندہ چیختا ہوا اڑتا تو اس کا شور ہمارے بڑھتے قدم روک دیتا۔

تالاب میں ہمارا سفر انتہائی طویل ہو گیا اور ہم محض اس بات سے حوصلہ پکڑتے رہے کہ جاہت کو حرکت میں بہت تکلیف ہوتی ہے کیونکہ ہمیں وہ ایک بار بھی حرکت کرتے دکھائی نہیں دیے۔

ہاشم پوری محنت سے میرے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور کیچڑ میں لتھڑا ہوا عجیب مخلوق دکھائی دیتا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوتی تھی کہ ہاشم جیسا دھان پان سا آدمی کیسے اتنی مشقت برداشت کر رہا ہے۔ خیر، اُس وقت تو مجھے ہاشم کے بارے سوچنے کا وقت نہیں ملا کہ میری اپنی حالت خراب ہو رہی تھی۔

جب ہم ہاتھیوں سے 200 گز دور رہ گئے اور دوسرا کنارہ ان سے مزید 100 گز آگے تھا تو ہاشم رک گیا۔ کھانستے ہوئے اس نے مجھے بتایا کہ ہمیں ایک جانب کا رخ کر کے ہاتھیوں کے آگے پہنچنا چاہیے۔ اس کی بات بالکل درست تھی کہ اس مقام سے گولی چلانا ممکن نہیں تھا اور یہ بھی امکان تھا کہ ہتھنی ہمیں دیکھ لیتی۔ جاہت سے تو ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا کہ اس کی موت بہت قریب پہنچ چکی تھی۔ مگر ہتھنی اور اس کا بچہ ہمارے لیے کافی خطرہ ہو سکتے تھے کہ ہتھنی اپنے بچے کو محفوظ رکھنے کی خاطر کچھ بھی کر سکتی تھی۔ اب اگر ہتھنی کو ہماری موجودگی کا احساس ہو جاتا تو اس دلدلی کیچڑ میں ہمارا کیا بنتا؟

سو ہم نے ایک جانب کا رخ کیا اور ہر ممکن آڑ کا سہارا لیتے ہوئے پیش قدمی جاری رکھی۔ تالاب اب دلدل بن چکا تھا اور ہم ٹھوکریں کھاتے اور تھکن سے نڈھال آگے بڑھتے رہے۔ پسینہ بہہ کر میری آنکھوں کو جلا رہا تھا اور پورا جسم سورج سے جھلسا ہوا اور کانپ رہا تھا۔ جسم کا ہر پٹھہ تھکن سے بے حال اور سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔

شدید جہدوجہد کرتے ہوئے ہم بار بار مڑ کر ہاتھیوں کو بھی دیکھتے رہے کہ کہیں وہ آگے نہ نکل گئے ہوں۔ مجھے یہ سفر ابدیت پر محیط لگا مگر حقیقت میں شاید ایک گھنٹہ لگا ہو کہ ہم ٹھوس زمین پر جا چڑھے۔ سورج غروب ہو چکا تھا اور آسمان لال ہو رہا تھا۔

جب ہم خشکی پر چڑھے تو تھکن سے نڈھال تھے اور کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ زمین پر لیٹ کر ہم نے اپنی سانس بحال کی اور بدن پر شدید کھجلی ہو رہی تھی ۔ پورے جسم میں شدید درد تھا۔

ہاشم پہلے اٹھا۔ اس نے ہاتھیوں کو دیکھا اور فوراً مجھے اٹھایا۔ ہم گھٹنوں اور کہنیوں کے بل چل کر ہم اس مقام تک پہنچے جہاں ایک نیا اور مشکل تجربہ ہمارا منتظر تھا۔

شکار کے پیچھا کرنے میں ہاشم کی اصل اہمیت تھی۔ اس نے ہر خشک لکڑی اور شاخ ہٹائی اور سبز شاخیں توڑتا گیا۔ میرا کام محض اس کے پیچھے پیچھے حرکت کرنا تھا۔

آخرکار ہاشم نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بہت احتیاط سے انچ انچ کر کے اٹھا اور اپنے گھٹنوں تک کھڑا ہوا۔ پھر ہاتھ کے ہلکے سے اشارے سے اس نے مجھے اٹھنے کو کہا۔ تب جا کر مجھے اس چیز کا احساس ہوا جو میرے کنپٹوں پر دھمکتے خون اور بے آواز حرکت کے خیال سے میں نے نہیں محسوس کی تھی۔ ہمارے سامنے پانی سے شپ شپ اور ہاتھیوں کے سانس لینے کی آواز آ رہی تھی۔

انتہائی آہستگی سے میں اٹھا اور گولی چلانے کو تیار ہوا۔ میں نے سامنے کچھ ہری ٹہنیاں موڑیں اور پچاس گز دور مجھے بہت آہستگی سے ہاتھی آتے ہوئے دکھائی دیے۔ بچہ اپنی سونڈ سے ماں کو پکڑے ہوئے تھا اور ہتھنی سی جاہت کو سہارا دیے آ رہی تھی۔

مجھے جاہت کا زخم نہیں دکھائی دیا جو شاید سر کے دوسری جانب ہوگا۔ وہ شدید تکلیف میں ہوگا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور ہر سانس کے ساتھ اس کی سونڈ سے خون بہتا۔ اس کے سینے سے درد کی وجہ سے چنگھاڑیں نکل رہی تھیں۔

کسی قدیم بلا کی مانند اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ اس کے بیرونی دانتوں کا بالائی حصہ انسانی ران جتنا موٹا اور بہترین حالت میں تھا۔ اس کی کھال موٹی بوری کی مانند لٹک رہی تھی۔

میں آہستہ آہستہ ایک گھٹنے کے بل کھڑا ہوا اور محسوس کیا کہ ہاشم میرے سامنے سے ہٹ گیا ہے تاکہ مجھے گولی چلانے میں سہولت ہو۔ میں نے آہستگی سے دو نالی رائفل اٹھائی اور بہت نرمی سے سیفٹی کیچ ہٹایا تاکہ شور نہ ہو۔ میں نے دیدبان سے اس پرانے بدمعاش کو دیکھا جس کی نجانے کتنی کہانیاں مشہور تھیں۔

اس کے جسیم کان عین اسی لمحے ہلے جب میں نے رائفل کا کندہ اپنے شانے سے لگایا۔ شاید اسی لمحے اس کی موت نے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔ میں نے گہرا سانس لیا اور آہستہ آہستہ باہر نکالا۔ پھر میں نے اپنے بازوؤں کے پٹھوں سے کام لیا۔ ساری تھکن اور تکلیف کافور ہو چکی تھی۔ میرا نشانہ اس کی کنپٹی کا نچلے کنارے سے ہوتا ہوا اس کی آنکھ پر آیا۔ پھر میں نے لبلبی آہستہ سے دبا دی۔

بھاری گولی جب اسے لگی تو مجھے صاف آواز سنائی دی اور میں نے دیکھا کہ عظیم الجثہ ہاتھی اس صدمے سے ہلا، پھر اس کا بدن کپکپایا اور پھر آہستہ آہستہ گھٹنوں کے بل جھکا اور پھر واپس پانی میں جھپاکے کے ساتھ گرا۔

ہتھنی اور اس کے بچے نے شور مچایا اور جھاڑیوں سے کسی بلڈوزر کی مانند گزرتے ہوئے دور غائب ہو گئے۔ ہاشم اور میں جذبات کی شدت سے کانپ رہے تھے اور ہمارے سامنے پانی میں وہ عظیم ہاتھی پڑ اتھا جو سی جاہت، بدمعاش کہلاتا تھا۔ پھر اچانک میرے جسم نے میرا وزن سہارنے سے انکار کر دیا۔ کئی دن کی پریشانی کا اثر اب ظاہر ہو رہا تھا اور اب مجھے آرام کرنا تھا۔ تالاب پر شام چھا گئی۔ ہزاروں مینڈکوں نے بیک وقت ٹرانا شروع کر دیا اور جنگل سے جھینگروں کی جھائیں جھائیں آنے لگی۔ آبی پرندے چلائے اور دو شکاری پرندے اوپر سے اڑتے ہوئے گزرے۔ ان کے پروں سے ہوا شُوک رہی تھی۔ عجیب، خواب سا لگ رہا تھا۔ اس طرح سی جاہت کی داستان تمام ہوئی اور مجھے لگا کہ شاید میں ہاتھیوں کے قبرستان والی بات کی تہہ تک پہنچ سکتا تھا۔