آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
ہے بو الہوسوں پر بھی ستم ناز تو دیکھو
اس بت کے لیے میں ہوس حور سے گزرا
اس عشق خوش انجام کا آغاز تو دیکھو
چشمک مری وحشت پہ ہے کیا حضرت ناصح
طرز نگہ چشم فسوں ساز تو دیکھو
ارباب ہوس ہار کے بھی جان پہ کھیلے
کم طالعی عاشق جاں باز تو دیکھو
مجلس میں مرے ذکر کے آتے ہی اٹھے وہ
بدنامیٔ عشاق کا اعزاز تو دیکھو
محفل میں تم اغیار کو دز دیدہ نظر سے
منظور ہے پنہاں نہ رہے راز تو دیکھو
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
دیں پاکی دامن کی گواہی مرے آنسو
اس یوسف بے درد کا اعجاز تو دیکھو
جنت میں بھی مومنؔ نہ ملا ہائے بتوں سے
جور اجل تفرقہ پرداز تو دیکھو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |